ڈرون حملوں کی سیاست

ڈرون حملوں کی سیاست
droneجنرل پرویز مشرف نے میرے ساتھ جیونیوز کے ”جرگہ“ میں اعتراف کیا کہ انہوں نے امریکہ کو ڈرونز کے پاکستانی حدود میں داخلے کی اجازت دی تھی لیکن حملوں کے لئے نہیں بلکہ فضائی نگرانی کیلئے ۔ وہ آدھا سچ بول رہے تھے کیونکہ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے دور میں بھی تو ڈرون حملے ہوئے تھے پھر انہوں نے یہ اجازت واپس کیوں نہیں لی تو وہ اگر مگر کا سہارا لے کر کہنے لگے کہ ان کے دور میں بہت کم حملے ہوئے اور اب روز کا معمول ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ حکومت پاکستان کی اجازت سے ہورہا ہے۔ ابتدا میں ڈرون پاکستان کے پسنی ایئربیس سے اڑتے رہے۔ صرف چند حملے ایسے ہوئے ہیں کہ جن میں امریکیوں نے سو فیصد اپنی انٹیلی جنس پر انحصار کیا باقی تمام میں پاکستانی ادارے ہدف کی تعیناتی میں مدد کرتے رہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان حملوں میں ابھی تک افغان طالبان کا کوئی بھی قابل ذکر رہنما نہیں مارا گیا ۔
مقامی قبائلیوں کے علاوہ القاعدہ کے وابستگان یا پھر وہی پاکستانی طالبان نشانہ بنے جو پاکستانی سیکورٹی فورسز کو مطلوب تھے۔ نیک محمد ، بیت اللہ محسود، قاری حسین اور ابن امین وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح ڈرون حملوں نے پاکستانی طالبان کے رابطے کے عمل کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
ڈرون حملوں کے یہ نتائج یقینا پاکستان کے اصل حکمرانوں کی نظروں سے مخفی نہیں اور اندر سے اس پر بہت خوش بھی ہیں۔ مخالفت وہ پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے یا پھر امریکہ کے ساتھ اپنا سفارتی اسکور برابر کرنے کیلئے کررہے ہیں اور چونکہ امریکیوں کو اس سارے گیم کا پتہ ہے اسلئے وہ ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی حکمرانوں کے نمائشی مطالبات کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ڈرون جیسے ایشوز کو سیاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ دیکھ چکے ہیں کہ ڈرون حملوں کے خلاف پہلا بڑا احتجاجی جلوس عوامی نیشنل پارٹی نے نکالا تھا( ڈمہ ڈولا پر ڈرون میزائل حملے کے بعد اے این پی نے اسفندیارولی خان کی زیرقیادت دیر سے باجوڑ تک احتجاجی ریلی نکالی تھی) لیکن جب بیت اللہ محسود اس کا نشانہ بنے تو حکمران جماعت پی پی پی کے بعد اسی جماعت کی قیادت نے زیادہ خوشی منائی تھی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ حملے پرویز مشرف کی وار آن ٹیرر کے پیکیج کا حصہ ہیں جس پر وہ ستمبر 2001ء میں دستخط کرچکے تھے جبکہ عمران خان 2002ء کے اواخر تک ان کے ساتھ رہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتیں ڈرون حملوں کے بعد بھی پرویز مشرف کے ساتھ حکومت کے مزے لیتی رہیں ۔ تقریروں کے لئے تو سب گئے لیکن چونکہ ان کو خوف تھا کہ کامیابی کا کریڈٹ عمران خان کو ملے گا، اسی لئے جماعت اسلامی اور جے یو آئی سمیت کسی جماعت نے اپنے کارکن وہاں نہیں بھیجے۔بہت سوچا لیکن پاکستان کے گلی کوچوں میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی جلوسوں کا فائدہ سمجھ نہیں سکا۔
جلسے جلوسوں کا اہتمام کسی ایشو پر رائے کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو امریکیوں پر بہت پہلے سے واضح ہوچکا ہے کہ پاکستانی عوام کی واضح اکثریت ڈرون حملوں کی ہی نہیں امریکہ کی پوری خارجہ پالیسی کی مخالف ہے۔ ان کی اکثریت افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی بھی مخالف ہے اور اپنی حکومت کی طرف سے امریکہ کا اتحادی بن کر ساتھ دینے کی پالیسی کی بھی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ پشاور میں احتجاجی دھرنے سے امریکہ کو کیا تکلیف پہنچی ہوگی۔ باغ ناران پہنچے تو ہمیں بھی دھرنے کا نظارہ کرنے کے لئے اسٹیج پر بلایا گیا۔
ایک سینئر اینکر اور تجزیہ کار نے اسے چند ہزار کا مجمع قرار دے کر میری رائے طلب کی تو عرض کیا کہ دھرنے میں اس کم شرکت کے ذریعے پشاوریوں نے احتجاجی سیاست کے خلاف دھرنا دیا ہے۔ انہیں بم دھماکوں ، مہنگائی ، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ نے پریشان کررکھا ہے اور دوسری طرف روز روز انہیں احتجاجی جلوسوں کا سامنا ہے، جن سے امریکہ کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ ان کے مذکورہ مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایک طرف اجازت اور دوسری طرف احتجاج، اس دوغلی پالیسی کے ذریعے ہم دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو مزید بے وقعت کررہے ہیں ۔ یقینا ڈرون حملوں کے معاملے پر ڈیل سے امریکیوں نے بھارت کو بھی آگاہ کیا ہوگا۔ بلاشبہ حامد کرزئی بھی جانتے ہوں گے کہ درپردہ معاملہ کیا ہے ۔ اب جب پاکستان کے اصلی اور جعلی حکمران مل کر ڈرون حملوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں تو امریکی، ہندوستانی اور افغانی ہمارے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟
کسی میں جرأت ہے تو احتجاج ان لوگوں کے خلاف کرے جنہوں نے امریکیوں کو ان کی اجازت دے رکھی ہے ۔ پھر تو دھرنوں کی صحیح جگہ پشاور نہیں بلکہ اسلام آباد یا پنڈی ہے اور اگرکسی نے ان دھرنوں کے ذریعے نیٹو کی سپلائی روکنی ہے تو پھر بھی مناسب جگہ کراچی ہے کیونکہ پشاور سے سپلائی کی بندش سے تو صرف ایک روٹ بند ہوجائے گا لیکن چمن کے راستے تو پھر بھی جاری رہے گی ۔ یوں اگر کراچی میں بند کردیا جائے تو پاکستان کے تمام راستوں سے نیٹو کو سپلائی بند ہوجائے گی لیکن میرے نزدیک پشاور کی طرح کراچی میں بھی دھرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ڈرون حملے بھی اسلام آباد اور پنڈی سے بند ہوسکتے ہیں اور نیٹو کی سپلائی بھی ۔ دونوں کی اجازت یہاں سے دی گئی ہے اور وہاں کے مکین ہمت کریں تو دونوں کو رکوا بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ جس کسی نے روکنا ہے اسلام آباد اور پنڈی والوں کو روکیں ۔
لگتا ہے کہ پرویز مشرف دور کی پالیسیاں اب بھی جاری ہیں۔ وہ ایک طرف امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے چلے جاتے تھے اور دوسری طرف ایم ایم اے بنا کر اس سے مظاہرے کراتے تھے ۔ اس طرح وہ امریکہ کے ساتھ اپنی بارگیننگ پاور بڑھانا چاہتے تھے ۔ یہ مقصد تو وقتی طور پر وہ حاصل کر چکے لیکن قوم ان معاملات سے متعلق کنفیوژ ہوئی اور اسی کنفیوژن کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں ۔
آج اگر کوئی دوبارہ کسی سے ایم ایم اے کا کام لینا چاہتا ہے اور کوئی ایم ایم اے جیسا بننا چاہتا ہے تو اس کی مرضی۔ وقتی طور پرتو ان دونوں کو فائدہ ہوجائے گا لیکن نہ صرف دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوگی بلکہ مستقبل میں اس کے مزید بھیانک نتائج ہمیں بھگتنا ہوں گے ۔
جہاں تک امریکیوں کا تعلق ہے وہ اسی طرح کی ڈرامہ بازی یا پھر احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں ڈرون حملے کبھی نہیں روکیں گے۔ وہ ڈرون کو افغان جنگ کے حوالے سے موثر ترین ہتھیار سمجھتے ہیں۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ پوری افغان جنگ میں القاعدہ کے اتنے وابستگان قتل نہیں ہوئے جتنے ڈرون حملوں کے نتیجے میں فاٹا میں نشانہ بنے ۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس کا امریکیوں کے لئے نقصان نہ ہونے کے برابر ہے اور فائدہ (ان کے لئے ) بہت زیادہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں اگر بعض بے گناہ مرتے ہیں تو اس کی انہیں کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ مرنے والے امریکی نہیں پاکستانی ہیں۔ پاکستانی بھی بلاول وغیرہ نہیں بلکہ قبائلی پختون پاکستانی ہیں ۔ ان کی ہلاکتوں کا پاکستانی حکمرانوں کی صحت پر اثر نہیں پڑتا تو امریکی ان کی ہلاکتوں کی وجہ سے اپنا راستہ کیوں بدلیں؟

سلیم صافی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں