شام:سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 400شہری ہلاک

شام:سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 400شہری ہلاک
syria_daraa_protestدمشق (العربیہ) شام کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم سواسیہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے گذشتہ ڈیڑھ ایک ماہ کے دوران جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں چارسو افراد کو ہلاک کردیا ہے۔

اس تنظیم نے منگل کو ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرکے شامی عہدے داروں کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمات شروع کرنے پر غورکیا جائے اور اس ملک کے سکیورٹی اداروں کو کسی قاعدے ضابطے کے تحت لایا جائے۔
سواسیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”حکمرانوں کو برسراقتدار رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کی صرف مذمت ہی نہیں کی جانی چاہیے بلکہ عالمی برادری کوئی عملی اقدام بھی کرے”۔
”شامی حکومت میں شامل قاتلوں کا مواخذہ کیا جانا چاہیے۔اس حکومت نے گذشتہ چارعشروں کے دوران خون کی جو ندیاں بہائی ہیں،وہی کافی ہیں”۔بیان میں بعث پارٹی کی گذشتہ چالیس سے جاری حکومت کا حوالہ دیا گیا ہے۔سواسیہ کے بورڈ میں شام کے فلسفے کے پروفیسر صادق جلال الاعظم بھی شامل ہیں جن کی کتاب ”شکست کے بعد خودپر تنقید” سے 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کی فتح کے بعد عربوں کے احیاء میں مدد ملی تھی۔
شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے ایک اطلاع میں بتایا ہے کہ سکیورٹی پولیس نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن قاسم الغزاوی کو مشرقی قصبے دیرالزور میں واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا ہے۔ان کے علاوہ وسطی شہر حمص سے گرفتار کیے گئے ایک معروف کارکن محمد عیسیٰ کا کیس فوجی عدالت کو بھیج دیا ہے۔ان پر تھورایا موبائل اور جدید کمپیوٹر رکھنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
شام کی سکیورٹی فورسز نے سوموار سے جنوبی شہردرعا کا چاروں اطراف سے محاصرہ کرکے صدربشارالاسد مخالف مظاہرین کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کی ہے جس کے بعد شہر سے زوردار دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔اس کارروائی میں مزید پچیس مظاہرین ہلاک ہوگئے تھے۔
شامی سکیورٹی فورسز نے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع قصبے دوما پر بھی ہلہ بولا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دوما البلد اور دوما المحیطہ میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔درعا کے نزدیک واقع قصبے نوی میں بھی جمعہ کے روز ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے موقع پر سکیورٹی فورسز اور جنازے کے شرکاء کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ درعا میں سکیورٹی فورسز اور حکومت مخالفین کے درمیان لڑائی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔درعا میں شام کی خصوصی سکیورٹی فورسز اور فوج کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاعات ملی ہیں ۔شامی سکیورٹی فورسز نے درعا میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا مرکز مسجد العمر کے نزدیک مرکزی شاہراہ اور اس کے نواح میں آٹھ ٹینک اور دوبکتربند گاڑیاں کھڑی کررکھی تھیں۔
شام کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ ساحلی قصبے جبلہ میں اتوار سے سکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیوں میں تیرہ شہریوں کو ہلاک کردیا ہے۔اس قصبے میں شامی صدر کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد سے سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حامی مسلح افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو الدوما،وسطی شہر حمص اور دوسرے علاقوں میں صدر بشارالاسد کے خلاف ریلیوں میں شریک ہزاروں افراد کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے براہ راست فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں کم سے کم ایک سو افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہوگئے تھے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے شام میں تشدد کے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے جو بھی اہلکار تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں،ان کے خلاف مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔
شام میں گذشتہ چھے ہفتوں سے صدربشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں اورانہیں اپنے گیارہ سالہ دور حکمرانی میں پہلی مرتبہ اس وقت شدید بحران کا سامنا ہے۔صدربشارالاسد کے مخالف مظاہرین ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔شام میں حالیہ ہفتوں کے دوران مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاون کے نتیجے میں چارسو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

اٹلی اور فرانس کا شام سے مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال بند کرنے کا مطالبہ
شام میں حکومت مخالف ہونے والے مظاہروں میں پولیس کے ہاتھوں مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال پر عالمی سطح پر رد عمل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیا اور امریکا کے بعد فرانس اور اٹلی نے بھی دمشق حکومت سے مظاہرین پر طاقت کے استعمال کا سلسلہ بند کرنے اور عوام کے جائز مطالبات پور ے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی نے منگل کو اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی سے روم میں ایک تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہ نماٶں نے شام میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سویلین کی ہلاکتوں کی شدید مذمت کی اور مزید ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرنےکا مطالبہ کیا۔
ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی نے کہا کہ انہیں شام میں موجودہ صورت حال قطعی طورپر قبول نہیں تاہم وہ سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر شام میں مداخلت کے لیےکوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔
اس موقع پر اطالوی وزیر اعظم برلسکونی نے بھی شام کی صورت حال کو مخدوش قرار دیتے ہوئے سولین کی ہلاکتوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر بشار الاسد پر تشدد واقعات کا ازخود نوٹس لیں اور ائندہ کے لیے یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
قبل ازیں امریکا نے شام میں خراب صورت حال کے باعث اپنا غیر سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا۔ امریکا نے شام میں مقیم اپنے تمام شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ وہاں سے نکل ائیں۔ منگل کو واشنگٹن میں تعینات شامی سفیر عماد مصطفیٰ کو بھی وزارت خارجہ میں طلب کر کے دمشق میں پرامن مظاہرین پر طاقت کے استعمال پر سخت احتجاج کیا گیا تھا۔

نئے اقدامات
ادھر دوسری جانب برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کےخلاف نئے اقدامات کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ دمشق میں حکومت مخالف مظاہروں پر طاقت کا استعمال روکا جا سکے۔
منگل کو برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک بیان میں کہا کہ “ان کا ملک شام کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے عالمی دوستوں سے بھی صلاح مشورہ کر رہے ہیں کہ ایا شام میں حکومت مخالف مظاہروں پر تشدد کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے”۔ انہوں نے مزیدکہا کہ شام میں انسانی آزادیوں، بنیادی حقوق کا احترام اور تشدد کی روک تھام کو یقینی بنانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
مسٹر ہیگ کا کہنا تھا کہ وہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبران اور یورپی یونین کے لیڈروں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں تا کہ صدر بشار الاسدکو تشدد رکوانے پر مجبور کرنے کے لیے انہیں سخت پیغام بھیجا جا سکے۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری ہوا ہے جب العربیہ کو اپنے ذرائع سے یہ معلوم ہوا تھا کہ برطانیہ سمیت سلامتی کونسل کے چار ممبر ممالک نے کونسل میں شام کےخلاف مذمتی قرارداد لانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں