شام: مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ، 84 افراد ہلاک

شام: مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ، 84 افراد ہلاک
syria_protest_02دمشق(العربیہ ڈاٹ نیٹ)شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے الدوما،وسطی شہر حمص اور دوسرے علاقوں میں صدر بشارالاسد کے خلاف ریلیوں میں شریک ہزاروں افراد کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے براہ راست فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں 84 افراد ہلاک اور بیسیوں مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں۔

آج نماز جمعہ کے بعد دمشق ،حمص، درعا، بانیاس ،اللاذقیہ اور دوسرے شہروں میں ہزاروں افراد نے آزادی کے حق میں اور صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق الدوما میں قریباً چالیس ہزار افراد احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔سکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق الدوما اور حمص میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے پچیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔کردآبادی والے شہر الحسکہ ، قامشلی اور دوسرے قصبوں میں بھی صدربشار الاسد کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں اور ان سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حکومت مخالفین نے صدر کی جانب سے ملک سے ایمرجنسی قانون کے خاتمے کے اعلان کو مسترد کردیا ہے۔شامی صدر نے گذشتہ روز ملک میں نصف صدی سے نافذ ہنگامی حالت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ محض وقت گزاری کے لیے اس طرح کے اقدامات کررہے ہیں جن کا مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا ہے جبکہ اس طرح کے اقدامات سے برسرزمین کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
شامی صدر کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش ایک کارکن ملاث عمران کا کہنا ہے کہ ”ایمرجنسی کے قانون کے خاتمے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ سکیورٹی سروسز کسی بھی قانون کی پابند نہیں ہیں۔اس لیے شامی عوام کا حکومت پر کوئی یقین نہیں رہا ہے”۔
جنوبی شہر درعا سے تعلق رکھنے والے حکومت مخالفین نے دو روز پہلے جمعہ کو حکومت کے خلاف ایک بڑا جلوس نکالنے کا اعلان کیا تھا اور شام کے تیسرے بڑے شہر حمص میں بھی بڑی احتجاجی ریلی نکالی جارہی ہے۔ان دونوں شہروں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے سخت کشیدگی پائی جارہی ہے۔
بدھ کو درعا کی مسجد العمری کے نزدیک جامعات کے چار ہزار طلبہ نے مظاہرہ کیا تھا۔ شمالی شہر حلب میں بھی جامعہ حلب کے طلبہ نے حکومت مخالف مظاہرے کیے تھے۔وسطی شہر حمص میں گذشتہ اتوار کو سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شامی سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گذشتہ ڈیڑھ ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ان میں سے اکثر کو کسی وجہ کے بغیر پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا پھر ان سے ناروا سلوک کیا گیا ہے لیکن اس تنظیم ان کی حتمی تعداد نہیں بتائی۔
شام میں گذشتہ چھے ہفتوں سے صدربشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں اور بشارالاسد کو اپنے گیارہ سالہ دورحکمرانی میں پہلی مرتبہ اس وقت شدید بحران کا سامنا ہے۔ان کے مخالف مظاہرین پہلے تو ملک میں سیاسی آزادیاں دینے اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے مطالبات کررہے تھے لیکن اب وہ بشارالاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جمعہ کے مظاہروں سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں شامی حکام پر زوردیا کہ وہ مظاہروں کا جواب تشدد سے نہ دیں اور انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کے بارے میں ڈائریکٹر میلکم سمارٹ نے بیان میں کہا کہ شام کی سڑکوں پر مزید خونریزی سے بچنے کے لیے مظاہرین کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”جمعہ عظیم کے موقع پر شامیوں کی جانب سے مظاہروں میں زیادہ لوگوں کی شرکت کی توقع ہے لیکن اگرسرکاری سکیورٹی فورسز نے پُرتشدد حربے آزمائے،جو وہ گذشتہ ماہ کے دوران آزما چکے ہیں تو اس کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوں گے”۔
ایمنسٹی کے مطابق شام میں حالیہ ہفتوں کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاون کے نتیجے میں دوسواٹھائیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ گذشتہ منگل کو وسطی شہر حمص میں حکومت کے خلاف پُرامن دھرنا دینے والے افراد پر فائرنگ سے آٹھ مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں