مولاناعبدالحمید:عقل انسان کیلیے سب سے بڑی نعمت ہے

مولاناعبدالحمید:عقل انسان کیلیے سب سے بڑی نعمت ہے
molana_27خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے جمعہ رفتہ کے خطبے کا آغاز سورت آل عمران کی آیات ۱۹۱ اور ۱۹۲ سے کیا۔ عقل و تدبر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے اسلامی نقطہ نظر سے عقل و تفکر کے مقام کے بارے میں تفصیلی خطاب کیا۔

انہوں نے کہا اللہ تعالی نے ان آیات میں اپنے بندوں کو سوچنے کی دعوت دی ہے تا کہ انسان مخلوقات الہی کے نظام اور حقیقت پر غور کرے، اللہ تعالی نے کیوں یہ چیزیں خلق فرمائی ہے، اس پرغور و فکر کی برکت سے انسان پر اللہ رب العزت کی عظمت و بزرگی واضح ہو جائے گی، آدمی کو زندگی کا مقصد معلوم ہوجائے گا۔ مذکورہ قرآنی آیات میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو آسمانوں اور زمین کی خلقت اور شب و روز کی گردش پر تدبر و تفکر کرتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ تعالی کی بڑائی کو مان کر ہر حال میں ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھائی: اللہ تعالی نے انسانوں کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے، اس نعمت و طاقت سے صحیح راستوں میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ صرف مادیات پر اسے نہیں لگانا چاہیے بلکہ اس کے ذریعے معنوی و روحانی ترقی بھی حاصل کرنی چاہیے؛ عقل کو جس راستے پر لگایا جائے اس کی نمو اور ترقی اسی راستے پر ہوگی چاہے وہ مثبت ہو یا منفی۔ بلاشبہ جو لوگ کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں اپنی معرفت کی نعمت عظمی عطا فرماتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا اس نعمت خداوندی کو بروئے کار لاکر سوچنے والوں کو معلوم ہوجائے گا یہ پوری کائنات بیکار تخلیق نہیں ہوئی، اس زمین میں چھپے ہوئے ذخائر و معدنیات ہمارے فائدے کے لیے ہیں تا کہ ہم ان سے استفادہ کرکے اللہ کی عظمت سے آگاہ ہوں اور اسی کی بندگی کرتے رہیں۔
تفکر کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا اس عجیب و غریب نظام دنیا اور کائنات کا کوئی خالق بھی ہے، خالق وہی ذات پاک ہے جس نے انسان کو ایک قطرہ پانی سے پیدا کرکے اسے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، اسی ذات پاک نے تمام جانوروں اور کائنات کو انسان کی خدمت میں لگائی ہے، اب اس مخلوق کو خالق کی معرفت حاصل کرکے اس کی عبادت کرنی چاہیے۔
خطیب اہل سنت نے تاکید کی عقل انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے جسے اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے۔ اس لیے انسان کو عقل کا استعمال کرنا چاہیے، آخرت سنوارنے اور دنیوی فوائد حاصل کرنے کیلیے عقل سے کام لینا چاہیے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ دنیوی امور میں ماہر و عقلمند ہیں مگر اللہ کی معرفت انہیں حاصل نہیں اور وہ کائنات کے پیدا کرنے والے کے بارے میں سوچے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ غور کرنا اور عقل سے کام لینا قرآنی حکم ہے، قرآن کہتا ہے موت کو یاد کرو جب آخرالامر تمہیں صرف ایک کفن ملے گا اور قبر میں اکیلے رہو گے۔ جو گناہوں کے دلدادہ ہیں انہیں اس لمحے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام نے زور دیتے ہوئے مزید کہا اہل دنیا کے پاس جتنی رحمت و خیر ہے یہ سب اللہ کا فضل ہے اور اس پر سارے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدیون ہیں، آپ (ص) اور صحابہ کرام (رض) کے بے مثال قربانیوں کی برکت سے انسانیت کو فلاح و کامیابی کی راہ مل گئی، انہوں نے اپنا سب کچھ ہماری کامیابی کی خاطر قربان کردیا، ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے اور ان کا مشن آگے بڑھا کر انسانیت کو سنت وسیرت نبوی (ص) سے قریب لانے اور انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ اہم ہے

اپنے بیان کے دوسرے حصے میں خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی صدراحمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے حالیہ دورہ ’سیستان وبلوچستان‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکیدکی ایرانی اہل سنت کیساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ ترقیاتی وفلاحی پیکجز سے زیادہ اہم ہے۔
جامع مسجد مکی زاہدان کے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزید کہا بلاشبہ رفاہی منصوبوں کا اجرا ملک کی ضرورت ہے، کسی حکومت سے توقع بھی یہی ہے کہ فلاح و بہبود کے شعبے میں کام کرے لیکن اس سے زیادہ اہمیت ایک اور مسئلے کو دینی چاہیے اور وہ مختلف اقوام و مسالک کے درمیان انصاف و برابری کا نفاذ ہے جو قومی اتحاد ویکجہتی کیلیے ازحد ضرورری ہے۔
انہوں نے کہا آیت اللہ خمینی سمیت عوام کے مختلف طبقے شاہ کیخلاف اس لیے اٹھ کھڑے ہوئے تا کہ انصاف کا بول بالا ہو، چونکہ سابق رجیم میں عدل وانصاف کی کمی تھی، عوام حکام سے ناراض تھے، ان کی بات سننے کیلیے کوئی تیار نہیں تھا، نتیجے میں سب اس نظام کی برطرفی پراترآئے اور انقلاب ہوگیا۔
اہل سنت ایران کے نامور رہ نما نے حکومتی امتیازی پالیسی کو سنی اکثریت علاقوں کا سب سے اہم ایشو قرار دیتے ہوئے مزیدکہا ’سیستان وبلوچستان‘ میں مختلف قومیتیں اور مسلک کے پیروکار آباد ہیں، اگرچہ زاہدان کے اصلی باشندے بلوچ ہیں لیکن بلوچوں نے سیستانی، بیرجندی اور یزدی سمیت دیگر آبادکاروں کو قبول کیاہے، انقلاب سے پہلے یہاں اتحاد واتفاق کا ماحول تھا، حتی کہ کسی بھی محکمے میں شیعہ سنی اختلاف کا ایک کیس بھی نہیں تھا اور ہر مذہب ومسلک کے لوگ آزادی کیساتھ عبادت کیاکرتے تھے۔
مولاناعبدالحمید نے کہا قومی ومسلکی مسائل 1979ِ کے انقلاب کے بعد رونما ہوئے، ہم فرقہ واریت کے شدیدمخالف ہیں، ان اختلافات کی بنیادی وجہ حکومتی امتیازی سلوک ہے۔ یہ انقلاب ’اسلامی‘ کہلاتاہے اس لیے فرقہ واریت کی بیخ کنی ہونی چاہیے۔ اس ناسور کا خاتمہ امتیازی سلوک کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت کی سب سے بڑی خدمت اسی غلط پالیسی کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ امتیازی سلوک جس کی وجہ سے بلوچ قوم اور سنی عوام نظرانداز کردیے جاتے ہیں، شیعہ وسنی دونوں کے مفاد میں نہیں بلکہ سوفیصد ہمارے دشمنوں کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے تاکید کی ہمیں معلوم ہے حکومت اکیلی یہ کام نہیں کرسکتی بلکہ میدان سیاست کے تمام کلہاڑیوں کو سنی برادری کیخلاف نافذ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلیے آواز اٹھانی چاہیے تاکہ اصلی چہروں کو پالیسی بدلنے پر رضامند کیا جائے جن کے ہاتھ میں زمام مملکت ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے زور دیتے ہوئے کہا انصاف و مساوات ملک وقوم کے حق میں ہے، گزشتہ تین عشروں میں تمام صدور کے دورحکومت میں یہ بات دہراتے چلے آرہے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے نکتہ اٹھایا کہ موجودہ حالات میں جب ایران پوری دنیا میں اقلیتوں اور مظلوم قوموں کی حمایت کا دعوی کرتاہے اس کیلیے بہتر ہے اس کارخیر کا آغاز اپنی اقلیتیوں سے کرے، ہمیں امید ہے بااثر حکومتی حلقے بلوچستان سمیت تمام سنی علاقوں کے عوام کو ان کے جائز حقوق دلوائیں۔ اسی سے شیعہ وسنی برادریوں کے مسائل ومشکلات حل ہوسکیں گے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں