قذافی پر کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام

قذافی پر کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام
libya_bombطرابلس(بى بى سى) انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے حکومت کی حامی افواج پر مصراتہ میں کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے جس کے استعمال پر سو سے زائد ملکوں کی طرف سے پابندی لگائی گئی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس کے ایک فوٹو گرافر نے ایسے تین بموں کو مصراتہ شہر کے باغیوں کے کنٹرول والے ایک رہائشی علاقے میں پھٹتے دیکھا ہے۔
لیبیا کے حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان بموں کے باقیات کے معائنے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ بم ہسپتانوی ساختہ ہیں۔
سپین نے ابھی تک ان الزامات پر کسی نوعیت کا کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ کلسٹر بم ہوا میں ہی کھل جاتے ہیں اور ایک وسیع علاقے پر پھیل جاتے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد میں پھٹ نہیں پاتے اور عام شہریوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔
درایں اثنا مصراتہ میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی حامی فوج کی بمباری سے زخمی ہونے والے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نپٹے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایک ہسپتال کا دورہ کرنے والی بی بی سی کی ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کئی لوگ، جن میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی، بموں کے ٹکڑے لگنے سے بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق ہسپتال میں علاج معالجے کے سامان میں کمی آتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف برلن میں ہونے والی نیٹو کی وزرائے خارجہ کانفرنس لیبیا کے مسئلہ پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے میں ناکام رہی۔ مذاکرات کے دوران نیٹو ممالک لیبیا میں فوجی کارروائی کے لیے مزید جنگی جہاز لیبیا بھیجنے پر متفق نہیں ہوسکے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرے راسموسن نے کہا ہے کہ جب تک کرنل قذافی اقتدار پر قابض ہیں، ملک کے عام شہریوں کے لیے خطرات ختم نہیں ہو گے۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا پر جاری فضائی حملے جاری رہیں گے جب تک کہ لیبیا کے عوام کو کرنل قذافی کی حکومت سے خطرات لاحق رہیں گے۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ نیٹو عام شہریوں کے حفاظت کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی سختی سے پاسداری کر رہی ہے۔
اس سے پہلے روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے خبردار کیا تھا کہ لیبیا میں طاقت کاحد سے زیادہ استعمال خطرناک ہوگا لہذا مسئلے کے حل کے لیے سیاسی اور سفارتی ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
برلن میں لیبیا پر نیٹو کی کانفرنس کے اختتام پر روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ لیبیا میں نیٹو کی افواج نے اقوام متحدہ کی جانب سے دیے گئے اختیارات سے ایک سے زائد مرتبہ تجاوز کیا ہے اور ان تمام واقعات کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔
روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل راسموسین نے جو رپورٹ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی ہے اس کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سرگئی لاروف نے مزید کہا کہ لیبیا میں فوری طور پر جنگ بندکر کے مذاکرات کی ضرورت ہے۔’روس افریقی یونین کےامن منصوبےکی مکمل حمایت کرتا ہے۔ لیبیا کے مسئلے کےحل کے لیے علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس کے لیے سفارتی اور سیاسی ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ لیبیا میں القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی اطلاعات ملی ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔
دفاعی میزائل پروگرام پر ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس پر بات ہور رہی ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرے راسموسن نے لیبیا کے مسئلے پر بات آگے بڑھی ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ لیبیا میں کارروائی کے لیے جن جنگی طیاروں کی ضرورت ہے وہ جلد ہی مل جائیں گے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی جانب سے کرنل قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں لکھے گئے خط کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ خط نیٹو کے اتحاد کی علامت ہے ۔
’نیٹو ممالک لیبیا میں اپنے تین اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں شہری آبادی پر حملے بند کرنا ، فوجی اور نیم فوجی دستوں کی فوری واپسی اور لیبیا کے محصور علاقوں میں امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یمن اورشام میں نیٹو کی کسی کارروائی کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں اقوامِ متحدہ کی کوئی قرارداد موجود نہیں۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ کانفرنس میں نیٹو کے وزرائے خارجہ نے اپنے کام کرنے کے نئے انداز اور اصولوں کی بھی منظوری دی جس کے تحت ان تمام اقوام کے ساتھ شراکت بہتر بنائی جائے گی جو عالمی سیکیورٹی میں تعاون کے خواہش مند ہیں۔’برلن پارٹنر شپ پیکج جس کی منظوری دی گئی ہے، اس کے تحت ہم مزید معاملات پرنئے حلیفوں سے کئی طریقوں سے بات کر سکتے ہیں، اور یہ سب کے لیے بہت ہی اچھی بات ہوگی‘۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں