کرکٹ ، مولانا اور خودکش حملے

کرکٹ ، مولانا اور خودکش حملے
pakistan_terror_cricketبحیثیت قوم ہمارا ذوق نہایت خراب ہوچکا ہے۔ کھانے سے لے کر گانے تک اور لباس سے لے کر رسم و رواج تک، ہر جگہ دوسروں کی اندھی تقلید کے شوق میں ہماری بدذوقی اپنے عروج پر ہے۔ ہم دکھ سہنے کا سلیقہ بھی بھول گئے ہیں اور خوشی منانے کا طریقہ بھی۔ چیخ و پکار، پاں پوں ، ٹریفک جام، ہوائی فائرنگ ، چہروں پر عجیب و غریب رنگ ملنا ، یہ ہے ہماری خوشی کے اظہار کے طریقے۔

میچ ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے۔ شہروں کے بازاروں اور محلوں میں یوں غل غپاڑہ ہونے لگا کہ جیسے کرکٹ ورلڈ کی جیت کے ساتھ ساتھ ہم مقبوضہ کشمیر کو بھی آزادکراچکے ہیں ۔ شکر ہے ہار گئے اور سب ٹھنڈے پڑ گئے ورنہ تو فائنل کے روز تک کاروبار زندگی کا ٹھپ رہنا طے تھا۔ پھر جشن منائے اوربھنگڑے ڈالے جاتے، انعامات و اکرامات کے سلسلے چل نکلتے ۔
پنجاب حکومت جن کے خزانے میں ینگ ڈاکٹرز کے جائز مطالبات پورے کرنے کیلئے تو رقم نہیں اور وفاقی حکومت جو قرضوں کے سہارے ملک اور اپنا خرچہ چلارہی ہے، کے مابین کھلاڑیوں میں سرکاری زمینیں بھانٹنے کا میچ شروع ہوتا۔ باقی ماندہ پاکستانی نوجوان بھی ڈاکٹر، انجینئرز، سائنسدان، تاجر اور مصلحین کی بجائے کرکٹرز کو رول ماڈل بناتے، ان کے سروں پر بھی کرکٹ کا جنون مزید سوار ہوتا اور یوں ہر طرف کرکٹ ہی کرکٹ ہوتا۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ شاہد آفریدی سیاسی جماعت بناتے اورمحترم بھائی عمران خان سے جو کسر رہ گئی ہے اس کو پورا کرتے۔
یوں مجھے اس ہار کا دکھ قطعاً نہیں، فائدے مل گئے اور نقصان سے بچ گئے۔ پاکستانیت کا جذبہ اجاگر ہوااور ہندوستان کے ساتھ تلخی کم اور مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ستارہ شناسوں اور نجومیوں کی ڈرامہ بازی قوم پر آشکار ہوگئی، پتہ چل گیا کہ اللہ کے سوا جو بھی مستقبل کا علم رکھنے کا دعویٰ کرے وہ بکواس کرتا ہے۔ حکومت اس بکواس پر فوری پابندی نہیں لگاسکتی تو کم از کم ٹی وی چینلز اور اخبارات تو اس گندے دھندے میں تعاون سے باز آجائیں۔ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ یہ حقیقت قوم پر واضح ہوگئی کہ اس دنیا میں جیت کے لئے جذبات، دعائیں یا پھر مسلمان ہونا کافی نہیں، جو محنت کرکے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اور کسی بھی قومیت سے تعلق رکھنے والا ہو، کھیل، تجارت ، سیاست ، معیشت ، جنگ ، غرض ہر میدان میں جیت اس کا مقدرہو گی۔
ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم منتشر اور اسکینڈلز کی زد میں تھی، شاہد آفریدی نے چند ہی روز میں اس ٹیم کو حقیقی معنوں میں ٹیم بنا کر مقابلے کا قابل بنا دیا، اس سے یہ مثبت پیغام پاکستانی قوم کو مل گیا کہ اگر قیادت درست سمت میں گامزن کرائے تو پاکستانی قوم بھی مختصر عرصے میں قوم بن سکتی ہے ۔ غلطی کوئی نہیں تھی لیکن پھر بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرکے قوم سے معافی مانگی، یوں شاہد آفریدی نے ایک نئی مثبت روایت قائم کرکے سیاسی اور مذہبی قیادت کو ایک اور بڑا درس دیا۔
مکرر عرض ہے کہ کرکٹ اس حوالے سے اچھا کھیل ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو اکٹھا کرنے کا موجب بنتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں بنا دیا جاتا ہے؟ کیا امریکہ کرکٹ کا ورلڈ چیمپئن ہے ۔ اس کی فرعونیت کو چیلنج کرنے والا مسلمان ملک ملائیشیا کیا کرکٹ میں نمبر ون ہے ۔ مستقبل میں اس سے ٹکرانے کی تیاری کرنے والا چین کیا کرکٹ کے سہارے طاقتور بنتا جارہا ہے۔ ہم اگر کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت جاتے تو اقتصادی ، سیاسی اور سفارتی میدانوں میں ہمارے اوپر ہندوستان کی سبقت کیا کم ہوجاتی؟ تب کیا کشمیر آزاد ہوجاتا اور دنیا کی بڑی طاقتیں جو اس وقت ہندوستان کی ہمنوا ہیں، کیا ہماری ہمنوا بن جاتیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر کرکٹ کے ایک میچ کو قوم کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے کا رویہ کیوں کر درست ہوسکتا ہے۔
کرکٹ اچھا کھیل ہے ۔ اس میدان میں بھی پاکستان کو نمبر ون بن جانا چاہئے لیکن اس کو شاہد آفریدی اور دیگر کرکٹرز کے ہی سپرد کردینا چاہئے۔ باقی جس کا جو کام ہے، وہ اسی پر توجہ مرکوز کرلے۔ ہندوستان کے ساتھ ہمسری اور سبقت کی کوشش درست لیکن صرف کرکٹ کے میدان میں کیوں ؟ جمہوریت، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدانوں میں اس کی ہمسری کی کوشش کیوں نہیں۔ ہندوستان کی جی ڈی پی گروتھ ریٹ ۸ اعشاریہ ۳ اور ہمارا ۲ اعشاریہ ۷ ہے۔ اس کی فی کس سالانہ آمدنی ۳۴ سو اور ہماری ۲۴ سو ڈالر ہے ۔ وہاں بیروزگاری کی شرح دس اعشاریہ آٹھ اور ہمارے ہاں پندرہ فی صد سے زائد ہے ۔ وہاں افراط زر کی شرح گیارہ اور ہمارے ہاں ۱۳ اعشاریہ ۴ فی صد ہے ۔ صرف سائنس اور انجینئرنگ کے میدانوں میں ہندوستان کے اندر جتنے پی ایچ ڈیز ہیں، وہ ہمارے ملک کے تمام پی ایچ ڈیز کی تعداد سے زیادہ ہے۔ہندوستان کے کھیل کے میدان آباد اور ہمارے ویران ہوگئے ہیں۔ وہاں دنیا بھر سے سیاح اور سرمایہ کار جمع ہورہے ہیں اور ہمارے ملک سے اپنے شہری بھی بھاگ رہے ہیں۔ ہندوستانی حکومت پاکستان سمیت دنیا بھر کی کرکٹ ٹیموں کو سیکورٹی دینے میں کامیاب ہوئی اور ہم تنہا سری لنکا کی ٹیم کو بھی سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ سوال یہ ہے کہ کرکٹ کے علاوہ ان میدانوں میں ہم ہندوستان کی ہمسری کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور اگر ہمارے ڈاکٹر، سائنسدان، اساتذہ، سیاستدان، صحافی ، حتیٰ کہ جج بھی اسی طرح کرکٹ کے غبار میں مبتلا رہیں گے، اسی طرح پورا دن ہم کرکٹ میچ دیکھتے اور چھٹیاں مناتے گزاریں گے تو ان میدانوں میں کیوں کر ہندوستان کے مقابلے کے قابل ہوسکیں گے؟
مولانا فضل الرحمن کے استقبالیہ جلوسوں میں خودکش حملوں کا سبق ایسے عالم میں جب کہ وطن عزیز بڑی تیزی کے ساتھ مذہبی اور لبرل کی تقسیم کا شکار ہوتا جارہا ہے، مولانا فضل الرحمن جیسی شخصیات جو دونوں طبقات کے درمیان پل کی حیثیت رکھتی ہیں،کا وجود کسی غنیمت سے کم نہیں۔ ان کے استقبالیہ جلوسوں میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں جو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں سے ہر ایک اپنے بچوں اوراہل خانہ کے لئے مولانا فضل الرحمن جتنا اہم ہے، لائق صد افسوس ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خود مولانامحفوظ رہے ۔
قوم کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر بیرون ملک فرار ہونے، اونچی دیواروں والے ایوانوں میں محصور ہوجانے اور بزدلی کی نئی تاریخ رقم کرنے والے ہمارے بعض قائدین کا رویہ بھی افسوسناک ہے لیکن عمران خان ، سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمن جو کچھ کررہے ہیں، اسے بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوال یہ ہے کہ یہ روز روز کے جلسوں کی کیا ضرورت ہے ؟ اپنے شوق خطابت کی تکمیل کے لئے آئے روز اپنے کارکنوں اور پولیس والوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ ماضی میں عوام تک اپنی بات پہنچانے کا واحد ذریعہ جلسے ہوا کرتے تھے ۔ حکومت اور دنیا کے سامنے کسی ایشو سے متعلق اپنا نقطہٴنظرسامنے لانے کا بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ کارکن اپنے لیڈروں کے چہروں کی زیارت صرف جلسوں میں ہی کرسکتے تھے لیکن اب یہ تمام کام اخبارات اور ٹی وی چینلز کرسکتے ہیں۔ پھر جلسے اور جلوسوں کے ذریعے عوام کی زندگیوں کو اجیرن،کاروبار زندگی کو متاثر اور اپنی یا پھر اپنے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کرنے کا کیا جواز ہے؟ اپنی تو تجویز ہے کہ حکومت ہر طرح کے جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی عائد کردے اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں اس کا ساتھ دے تاکہ نہ صرف اس طرح کے واقعات کا سدباب ہو بلکہ پولیس بھی وی آئی پیز کو سیکورٹی فراہم کرنے اور جلسے جلوسوں کے انتظامات کی بجائے عام آدمی کی زندگی کو محفوظ بنانے کے اصل کام کی طرف متوجہ ہوسکے۔

سلیم صافی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں