
انہیں ذرائع کا کہنا ہے قتل ہونے والے تینوں افراد ان 2000 احتجاجی مظاہرین میں شامل تھے کہ جو جمعہ کے روز ہونے والے مظاہرے میں حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کی جس کے زد میں آ کر تین مظاہرین ہلاک ہوئے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں میں 10 افراد ہلاک ہوئے جبکہ حکومت نے ان ہلاکتوں کی تردید کی تھی۔
عینی شاہدوں کے مطابق شامی سیکیورٹی اہلکاروں اور بشار الاسد کے حامیوں نے نماز جمعہ کے بعد دمشق کی کفر سوسہ کالونی الرفاعی مسجد سے نکلنے والے جلوس کے شرکاء پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
بشار الاسد کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دو روز بعد [آج جمعہ] کی نماز کے بعد شام کے تین بڑے شہروں سے احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ اپنے خطاب میں شامی صدر نے اپنی حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں کو غیر ملکی سازش قرار دیا۔
شام کے طول وعرض سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہزاروں احتجاجی مظاہرین جمعہ کے بعد سڑکوں پر نکل آئے، جنہیں منتشر کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں آنسو گیس کے شیل فائر کئے۔ یہ احتجاجی جلوس دمشق کے نواحی علاقے الدوما اور ساحلی شہروں اللاذقیہ اور بانیاس سے نکالے گئے۔
ادھر شام کے شمال مشرقی کرد اکثریتی علاقوں میں پہلی مرتبہ آزادی کے حق میں نعرے بلند ہوتے دیکھے گئے۔ اکراد انسانی حقوق تنظیم کے چئررمین نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ سیکڑوں افراد نے القامشلی کے علاقے میں مظاہرہ کیا جبکہ اتنی ہی بڑی تعداد دارلحکومت سے سات سو کلومیٹر شمال مشرق میں آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتی سڑکوں پر نکل آئی۔
مسٹر مصطفی کے مطابق شام میں پندرہ مارچ کے بعد سے ان علاقوں میں نکالے جانے والے یہ پہلے احتجاجی مظاہرے تھے۔مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر آزادی کے حق میں نعرے درج تھے۔سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی تاہم بعض موٹر سائیکل سواروں نے نے مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔
کرد رہ نما نے مزید کہا کہ دمشق سے چھے سو کلومیٹر شمال مشرق الحسکہ میں دو سو افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے اس مظاہرے کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم اس موقع پر کسی فرد کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
عینی شاہدوں کے مطابق شامی سیکیورٹی اہلکاروں اور بشار الاسد کے حامیوں نے نماز جمعہ کے بعد دمشق کی کفر سوسہ کالونی الرفاعی مسجد سے نکلنے والے جلوس کے شرکاء پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
بشار الاسد کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دو روز بعد [آج جمعہ] کی نماز کے بعد شام کے تین بڑے شہروں سے احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ اپنے خطاب میں شامی صدر نے اپنی حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں کو غیر ملکی سازش قرار دیا۔
شام کے طول وعرض سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہزاروں احتجاجی مظاہرین جمعہ کے بعد سڑکوں پر نکل آئے، جنہیں منتشر کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں آنسو گیس کے شیل فائر کئے۔ یہ احتجاجی جلوس دمشق کے نواحی علاقے الدوما اور ساحلی شہروں اللاذقیہ اور بانیاس سے نکالے گئے۔
ادھر شام کے شمال مشرقی کرد اکثریتی علاقوں میں پہلی مرتبہ آزادی کے حق میں نعرے بلند ہوتے دیکھے گئے۔ اکراد انسانی حقوق تنظیم کے چئررمین نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ سیکڑوں افراد نے القامشلی کے علاقے میں مظاہرہ کیا جبکہ اتنی ہی بڑی تعداد دارلحکومت سے سات سو کلومیٹر شمال مشرق میں آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتی سڑکوں پر نکل آئی۔
مسٹر مصطفی کے مطابق شام میں پندرہ مارچ کے بعد سے ان علاقوں میں نکالے جانے والے یہ پہلے احتجاجی مظاہرے تھے۔مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر آزادی کے حق میں نعرے درج تھے۔سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی تاہم بعض موٹر سائیکل سواروں نے نے مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔
کرد رہ نما نے مزید کہا کہ دمشق سے چھے سو کلومیٹر شمال مشرق الحسکہ میں دو سو افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے اس مظاہرے کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم اس موقع پر کسی فرد کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
آپ کی رائے