ٹیری جونز اوراقوام متحدہ کا کردار

ٹیری جونز اوراقوام متحدہ کا کردار
21terryjones مارچ 2011ء انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب ایک امریکی مذہبی جنونی ٹیری جونز نے اسلام، مسلمانوں اور قرآن کریم سے شدید نفرت کے اظہار کیلئے اپنی ذہنی خباثت کو عملی شکل دیتے ہوئے قرآن کریم کو شہید کیا۔

پادری جونز نے قرآن کریم کی بے حرمتی سے قبل اپنے چند انتہا پسند ساتھیوں کے ساتھ ملکر قرآن کریم کیخلاف ایک علامتی عدالت قائم کی اور یہ الزام لگایا کہ نعوذ باللہ قرآن دنیا میں دہشت گردی اور انسان دشمنی کا ذمہ دار ہے اور یہی کتاب نعوذ باللہ 9/11 کے واقعہ کی ذمہ دار ہے۔
اس نام نہاد عدالت جس میں صرف جونز کے انتہا پسند ساتھی موجود تھے نے قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب قرآن پاک کو نذر آتش کیا جارہا تھا تو ظالم، سفاک، بے رحم اور انتہا پسند ٹیری جونز اور اس کے ساتھی قہقہے لگارہے تھے۔ پادری جونز سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس کا یہ اقدام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے تو ملعون جونز نے جواب دیا کہ اگر آج یسوع مسیح زندہ ہوتے تو میرے اس اقدام کی تعریف کرتے اور وہ خود بھی قرآن کریم کو جلانے کا فتویٰ جاری کرتے۔ اس نے مزید کہا کہ امریکہ کا آئین اور قانون اسے اس اقدام کی اجازت دیتا ہے۔
ٹیری جونز نے اس سے قبل گزشتہ سال 9/11 کی نویں برسی کے موقع پر قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کا اعلان کیا تھا ۔لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کے شدید ردعمل کی وجہ سے ٹیری جونز نے یہ ارادہ ملتوی کردیا تھا۔ اس سے قبل اس بدبخت پادری اور اس کے ساتھیوں نے اپنے گھروں اور چرچ کے باہر بینرز پر نعرے درج کروائے جن پر لکھا تھا ”اسلام نعوذ باللہ شیطان کا مذہب ہے“۔ اس چرچ کے ماننے والوں نے اپنے بچوں کو ایسی شرٹس پہنائیں جن پر اسلام کے خلاف اس طرح کے نعرے درج تھے۔
پادری جونز اور اس کے ساتھیوں کا متعصبانہ اقدام امریکہ اور یورپ میں قرآن پاک کے مطالعے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اسلام کی بے پناہ مقبولیت سے بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ یہ افراد دنیا بھر میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے سخت پریشانی، گھبراہٹ اور کنفیوژن کا شکار ہیں۔ان عناصر کو سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں بے انتہا پروپیگنڈے، رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اسلام اہل مغرب کے دلوں میں راستہ بنارہا ہے۔ مغرب کا اب کوئی بھی ملک، شہر یا قابل ذکر قصبہ باقی نہیں رہا جہاں اللہ کی کبریائی اور رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم کی رسالت کی گواہی کی صدائیں نہ گونجتی ہوں۔ امریکہ اور یورپ کے متعددممالک کی پارلیمنٹس میں مسلمان اراکین موجود ہیں۔ حال ہی میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر کی سالی کے قبول اسلام کے واقعہ نے دنیا بھر کو چونکا دیا ہے۔
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق قرآن کریم دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والے ٹیری جونز اور اس کے انتہا پسند ساتھی شاید اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اگر قرآن کریم کے نسخوں کو جلادیا جائے تو اس کی تعلیمات دنیا سے ختم ہوجائیں گی۔
اسے شاید معلوم نہیں کہ قرآن محض کاغذی صفحات پر ہی نہیں بلکہ ایک ارب 50 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں میں محفوظ ہے جبکہ اس وقت دنیا بھر میں 10 کروڑ سے زائد حفاظ قرآن موجود ہیں اور اس طرح قرآن کے فیض کا سمندر جاری ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا۔ ٹیری جونز جیسے تنکے اس سمندر کے فیض کو نہیں روک سکتے اس لئے مسلمانوں کو ٹیری جونز کی اس حرکت پر مشتعل ہوکر توڑ پھوڑ کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ جن لوگوں نے یہ گستاخانہ حرکت کی ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہوکر ایسی کارروائیاں کریں جن سے انہیں دہشت گرد ثابت کیا جاسکے اور امریکہ اور یورپ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی پیشرفت کو روکا جاسکے۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دنیا بھر میں مطالعہء قرآن کے مراکز قائم کریں اور قرآن کریم کے دنیا کی مختلف زبانوں کے مستند تراجم کے نسخے دنیا بھر کی لائبریریوں اور مطالعہ قرآن کے مراکز کو ہدیہ کریں۔ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات کو موثر انداز سے پھیلانا ہی ٹیری جونز کے انتہا پسندانہ اقدام کا مثبت، تعمیری اور بہتر جواب ہوسکتا ہے۔ صدر اوبامہ اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا ہے کہ ٹیری جونز کے اس اقدام سے افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی جانیں خطرے میں پڑجائیں گی۔ گویا انہیں قرآن کریم اور مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں، انہیں اگر فکر ہے تو صرف یہ کہ اس سے امریکی فوجیوں کی جانیں خطرے میں پڑجائیں گی۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمام مسلمان حکمران ملکر اقوام متحدہ میں مقدس کتابوں اور پیغمبروں کی شان میں گستاخی کو عالمی جرم قرار دینے کی قرارداد پیش کریں اور اس قرارداد سے قبل دنیا بھر کے دانشوروں کے ذریعے اس کیلئے رائے عامہ کو منظم کریں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ صدر آصف زرداری اور ترک صدر عبداللہ گل نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے کیلئے تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاکستان اور ترکی عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کی ترجمانی کرتے ہیں اس لئے اس مسئلے میں ان کی جانب سے کی جانے والی پیشرفت کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس وقت او آئی سی اور عرب لیگ بالکل خاموش ہیں۔ اگر اقوام متحدہ انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بناکر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے لیبیا پر بمباری کرواسکتا ہے تو اسے دنیا بھر کے ایک ارب 50 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا بھی خیال کرنا ہوگااور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقوام متحدہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور اس طرح کے قانون بنائے جس سے ہمیشہ کیلئے اس طرح کی گھناؤنی حرکات کا سدباب ہوسکے اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کو روکا جاسکے۔

اشتیاق بیگ
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں