
جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران حکومت مخالف احتجاج کے دوران متعدد افراد مارے گئے ہیں اور ان میں سے ایک کی ہفتے کے روز نمازجنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔انہوں نے حکمران بعث پارٹی کے دفاتر اور ایک پولیس اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔
درعا میں گذشتہ روز مظاہرین نے شام کے مرحوم صدر حافظ الاسد کے ایک مجسمے کو بھی اکھاڑ پھینکا تھا اور یہ منظر 2003ء میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بغداد میں نصب مجسمے کی عراقیوں کے ہاتھوں تباہی سے مشابہ نظر آیا۔ مظاہرین نے ایک ہی تحریر والا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق درعا کے قریب واقع قصبے طفاس میں بھی گذشتہ روز درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ایک شہری کمال بردان کے جنازے میں شریک افراد نے بعث پارٹی کی عمارت اور ایک پولیس اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔
دارالحکومت دمشق اور شمالی شہر حمہ میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔حمہ شہر میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دورحکومت میں 1982ء میں شامی سکیورٹی فورسز نے ایک کریک ڈاٶن کارروائی کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تھا اور اخوان المسلمون کی مبینہ مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے شہر کے قدیمی علاقے میں موجود عمارتوں کو زمین بوس کردیا تھا۔
اس دوران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل نے بتایا ہے کہ شامی حکومت نے دوسوساٹھ قیدیوں کو ان کی قید کی ایک تہائی مدت پوری ہونے کے بعد جیلوں سے رہا کردیا ہے۔ان میں زیادہ تر اسلام پسند شامل ہیں۔
جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کےدرمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اوربیسیوں زخمی ہو گئے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق کم سے کم ایک سو افراد مارے گئے۔جمعہ کو بیس زیادہ افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع منظر عام پر آئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے افراد کی تعداد پچپن بتائی ہے۔درعا میں ہفتے کے روز دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کے اہلکار نظر نہیں آئے۔
شام میں سکیورٹی فورسز کا سخت کنٹرول ہے اور اس عرب ملک میں چند ماہ قبل تک اس طرح کے حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا لیکن تیونس،مصر،لیبیا اوریمن کے بعد اب شام میں بھی حکومت مخالف تحریک زورپکڑتی جارہی ہے۔شام میں مظاہرے اسکول کے دس پندرہ بچوں کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے۔ان بچوں نے دوسرے عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے جمہوریت نوازوں سے متاثر ہوکر جمہوریت کے حق میں نعرے لکھے تھے اور پولیس انہیں اسی جرم میں پکڑ کر لے گئی تھی۔
اردن کی سرحد کے نزدیک واقع شہر درعا میں مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاون کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ شامی سکیورٹی فورسز مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ فوری طور پر بند کردیں۔
گذشتہ روزشام کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انہوں نے حکومت کے لاٹھی بردار حامیوں اور سکیورٹی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود جلوسوں میں شرکت کی ۔ مظاہرین ملک میں سیاسی آزادیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انہوں نے صدر بشارالاسد کے خاندان پر بدعنوانیوں کے الزامات عاید کیے ہیں۔
درعا میں گذشتہ روز مظاہرین نے شام کے مرحوم صدر حافظ الاسد کے ایک مجسمے کو بھی اکھاڑ پھینکا تھا اور یہ منظر 2003ء میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بغداد میں نصب مجسمے کی عراقیوں کے ہاتھوں تباہی سے مشابہ نظر آیا۔ مظاہرین نے ایک ہی تحریر والا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق درعا کے قریب واقع قصبے طفاس میں بھی گذشتہ روز درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ایک شہری کمال بردان کے جنازے میں شریک افراد نے بعث پارٹی کی عمارت اور ایک پولیس اسٹیشن کو نذرآتش کردیا۔
دارالحکومت دمشق اور شمالی شہر حمہ میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔حمہ شہر میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دورحکومت میں 1982ء میں شامی سکیورٹی فورسز نے ایک کریک ڈاٶن کارروائی کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تھا اور اخوان المسلمون کی مبینہ مسلح بغاوت کو کچلنے کے لیے شہر کے قدیمی علاقے میں موجود عمارتوں کو زمین بوس کردیا تھا۔
اس دوران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل نے بتایا ہے کہ شامی حکومت نے دوسوساٹھ قیدیوں کو ان کی قید کی ایک تہائی مدت پوری ہونے کے بعد جیلوں سے رہا کردیا ہے۔ان میں زیادہ تر اسلام پسند شامل ہیں۔
جنوبی شہر درعا میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کےدرمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اوربیسیوں زخمی ہو گئے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق کم سے کم ایک سو افراد مارے گئے۔جمعہ کو بیس زیادہ افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع منظر عام پر آئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران درعا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے افراد کی تعداد پچپن بتائی ہے۔درعا میں ہفتے کے روز دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کے اہلکار نظر نہیں آئے۔
شام میں سکیورٹی فورسز کا سخت کنٹرول ہے اور اس عرب ملک میں چند ماہ قبل تک اس طرح کے حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا لیکن تیونس،مصر،لیبیا اوریمن کے بعد اب شام میں بھی حکومت مخالف تحریک زورپکڑتی جارہی ہے۔شام میں مظاہرے اسکول کے دس پندرہ بچوں کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے۔ان بچوں نے دوسرے عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے جمہوریت نوازوں سے متاثر ہوکر جمہوریت کے حق میں نعرے لکھے تھے اور پولیس انہیں اسی جرم میں پکڑ کر لے گئی تھی۔
اردن کی سرحد کے نزدیک واقع شہر درعا میں مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاون کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ شامی سکیورٹی فورسز مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ فوری طور پر بند کردیں۔
گذشتہ روزشام کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انہوں نے حکومت کے لاٹھی بردار حامیوں اور سکیورٹی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود جلوسوں میں شرکت کی ۔ مظاہرین ملک میں سیاسی آزادیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انہوں نے صدر بشارالاسد کے خاندان پر بدعنوانیوں کے الزامات عاید کیے ہیں۔
آپ کی رائے