افغانوں کی خوفناک تصاویرکی اشاعت کے بعد امریکی فوجی کا کورٹ مارشل

افغانوں کی خوفناک تصاویرکی اشاعت کے بعد امریکی فوجی کا کورٹ مارشل
morlakسیاٹل(ایجنسیاں)امریکی فوج کے ایک ”بدمعاش” یونٹ سے تعلق رکھنے والے ایک فوجی کے خلاف افغان شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کرنے کے الزام میں مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔

دوروزقبل ہی ملزم امریکی فوجی جرمی مورلاک کی افغانوں کی لاشوں کے ساتھ تین خوفناک تصاویر شائع ہوئی ہیں۔جرمنی کے نیوزمیگزین ڈیراسپیگل نے ان تین میں سے جوایک تصویر شائع کی ہے،اس میں وہ ایک افغان کی لاش کے اوپر مسکرا رہا ہے۔اس افغان کو اس نے مبینہ طور پر جنوبی افغانستان میں قتل کیا تھا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق مرلاک نے اپنے کورٹ مارشل میں منشیات کے عادی یونٹ کی جانب سے جنوبی صوبے قندھارمیں افغان شہریوں کوقتل کرنے کے واقعات میں قصوروارہونے کا اقرارکیا ہے۔
امریکی فوجیوں کے ہاتھوں افغانوں کے بہیمانہ قتل کی ان تصاویر سے عراق کی بدنام زمانہ ابوغریب جیل میں قیدیوں سے ناروا سلوک کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ایک تصویر میں ایک اور فوجی اینڈریو ہولمز نے خون سے لتھڑی ایک لاش کا سر پکڑ رکھا ہے۔
فوجی طریق کار کے تحت اگر مرلاک بدھ کو قصوروار ہونے کا اقرارکرلیتا ہے تو فوری طور پر اس کے خلاف فوجی عدالت میں سزا سنائے جانے کی کارروائی شروع ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ اس کے خلاف پہلے ہی ایک مرتبہ کورٹ مارشل موخر کیا جاچکا ہے۔امریکی فوج کی ایک ترجمان میجر کیتھلین ٹرنر نے خوفناک تصاویر کی اشاعت کے بعد کہا ہے کہ مرلاک شیڈول کے مطابق بدھ کو عدالت میں پیش ہوگا۔
مرلاک افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث چار اور فوجیوں کے خلاف سرکاری گواہ بھی ہے اور خاص طور پر اسے کھیل ہی کھیل میں بے گناہ افغانوں کی جانیں لینے والے امریکی فوجیوں کے رنگ لیڈر اسٹاف سارجنٹ کالوین آر گبز کے خلاف گواہ بنایا گیا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ ڈیر اسپیگل نے امریکی فوجیوں کی شرمناک اور انسانیت سوز کارروائیوں کی تصاویر کہاں سے حاصل کی تھیں لیکن ان کے شائع ہونے کے بعد امریکی فوج نے سوموارکو ایک بیان میں معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ تصاویرکی اشاعت امریکی فوج کے معیار اور اقدار کے منافی ہے۔امریکی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ ”ہم ان تصاویر کی اشاعت سے اگر کسی کا دل دکھا ہے،تواس پر معذرت کرتے ہیں”۔
ڈیر اسپیگل کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے ان خوفناک تصاویر کی اشاعت رکوانے کی کوشش کی تھی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ان کی اشاعت سے افغانستان میں اس کے خلاف ردعمل ہوسکتا ہے۔میگزین کا کہنا ہے کہ اس نے ”قاتلانہ ٹیم” کی اسٹوری کی پانچ ماہ تک تحقیقات کی تھی اور اس نے چارہزار تصاویر اور ویڈیوز میں سے سوموار کو صرف تین تصاویر شائع کی ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں