طرابلس /پیر س/روم (اے پی پی/مانیٹرنگ ڈیسک )امریکا نے کروز میزائلوں اور فرانس نے جیٹ طیاروں سے لیبیا پر حملہ کردیا جبکہ معمر قذافی نے کہا ہے کہ لیبیا میں مداخلت کی تو عالمی طاقتوں کو پچھتانا پڑے گا ۔
تفصیلات کے مطابق لیبیا کے قریب سمندر میں موجود امریکی بحری بیڑے سے کروز میزائل لیبیائی فوج پر داغے گئے جبکہ فرانسیسی طیاروں نے لیبیا پر فضائی حملہ کر دیا ،فرانسیسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں قذافی کی حامی فوج کے 4ٹینک تباہ کر دیے ہیں۔
فرانسیسی وزارت دفاع نے حملہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی طیاروں نے کرنل معمر قذافی کی حامی فوج کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے اور 20 کے قریب فرانسیسی طیارے لیبیا کی فضائی ناکا بندی کر کے فضائی نگرانی کر رہے ہیں.
دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ برطانیہ بھی لیبیا کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے ۔
شمالی لیبیا میں رات گئے دھماکوں کی آوازیں سنائی دی جارہی تھیں ،لیبیا کے سرکاری ٹی وی نے کہا ہے کہ امریکی میزائلوں سے عام شہری نشانہ بنے ہیں ،سرکاری ٹی وی کے مطابق حملوں میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔ اس سے قبل فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ فرانسیسی طیارے لیبیا پر کارروائی کیلئے تیار ہیں اور لیبیا کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت کی جائے گی۔ ان حملوں کی منظوری پیرس میں یورپی یونین اور عرب ممالک کے اجلاس میں دی گئی ہے جبکہ جرمنی نے ان حملوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے کہا ہے کہ فرانسیسی جیٹ طیارے اس وقت بن غازی کے شہریوں کو لیبیائی فوج کے حملوں سے بچا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد یہ پہلی بیرونی مداخلت ہے۔ امریکا نے بھی حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔
دریں اثناءپیرس میں ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں فرانس، برطانیہ ، جرمنی ، اقوام متحدہ کے سربراہان، اور عرب لیگ کے نمائندے شریک ہوں گے۔اس اجلاس میں فوجی کارروائی کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔
ادھرنو فلائی زون کے قیام کے بعد بھی کرنل قذافی کی حامی فوج کے ٹینک باغیوں کے مضبوط گڑھ بن غازی شہر کے اندر موجود ہیں اور جنوب مشرقی حصے میں واقع یونیورسٹی کے اطراف میں لڑائی ہو رہی ہے۔بن غازی میں لیبیا کا جیٹ طیارہ گرا ہے۔ اس جیٹ طیارے میں پہلے ہی سے آگ لگی ہوئی تھی۔بن غازی کے اطراف میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا رہی ہیں ،ان حملوں میں 25افراد ہلاک اور40سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ شہر سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نکل رہی ہے۔
اسی دوران باغیوں کے رہنماءنے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ کرنل قذافی کی فوج کی جانب سے بمباری کو روکیں تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے مصطفیٰ عبدل جلیل نے غیر ملکی ٹی وی کو بتایا کہ بن غازی کے تمام اضلاع پر راکٹوں اور آرٹلری سے گولہ باری کی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل نہیں کیا تو بڑی تباہی ہو گی۔
لیبیا کے سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیرداخلہ جنرل فتح یونس نے باغیوں کی حمایت ترک کردی ہے اور واپس سرکاری کیمپ میں آگئے ہیں۔ باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہونے اور سرکاری کیمپ کی طرف رجوع کرنے کے باعث انہیں سابق عہدے پر بحال کردیا گیا ہے ۔
ادھراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ لیبیا کے مسئلہ پر دنیا کو لازمی یک زبان ہونا ہو گا۔اس سے قبل امریکا، برطانیہ، فرانس اور کچھ نامعلوم عرب ممالک نے لیبیا کو خبردار کیا کہ اگر اس نے باغیوں کے گڑھ بن غازی کی طرف پیش قدمی کو نہ روکا اورفوج کو مسراطہ اور زاویہ سے واپس نہ بلایا تو فوجی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
سیکورٹی کونسل کی قرار داد کی منظوری کے بعد امریکا کے لہجے میں یک لخت تلخی آ گئی ہے اور صدر اوباما نے جمعہ کو اپنے سخت ترین بیان میں کہا ہے کہ اگر کرنل قدافی اب بھی اقتدار سے علیحدہ نہ ہوئے تو امریکاکی فوجیں بھی لیبیا کے خلاف کارروائی میں شریک ہو جائیں گی۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ معمر قذافی اقوام متحدہ کے مطالبات کا احترام کریں یا فوجی کارروائی کا سامنا کریں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ اپنے طیاروں کو لیبیا کے خلاف کارروائی کیلئے روانہ کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں معمر قذافی کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں نے لیبیا کے معاملات میں مداخلت کی تو انہیں اپنی اس حرکت پر پچھتانا پڑے گا۔طرابلس میں سرکاری ترجمان کے مطابق معمر قذافی کا کہنا ہے کہ لیبیا میں مداخلت پر فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی او ر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو افسوس ہوگا۔لیبیا میں غیر ملکی فوجی کارروائی واضح جارحیت ہوگی ،عالمی طاقتوں کو لیبیا میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
ترجمان کے مطابق معمر قذافی نے امریکی صدر بارک اوباماا وراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی پیغامات بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ لیبیا میں عورتیں ،بچے اور مرد ان کی خاطر مرنے کیلئے تیار ہیں۔
علاوہ ازیں فرانسیسی کمپنی نے کمپنی سوفلٹ کے سربراہ لوئیک ڈیزلاس کی طرف سے جاری بیان میں کہا ہے کہ لیبیا کو زرعی اجناس کی برآمد معطل کردی ہے۔ فرانس سے لیبیاکو رواں سال کے دوران 13 لاکھ ٹن گندم برآمد کی جانی تھی۔
دوسری جانب اٹلی نے لیبیا میں نو فلائی زون کے قیام کیلئے عالمی برادری کو اپنی7 ہوائی اڈے فراہم کرنے کی پیشکش کردی۔ اٹلی کے وزیرخارجہ فرینکوفریٹنی نے کہا کہ اگر عالمی فورسز کی جانب سے لیبیا میں نوفلائی زون کے قیام کے بدلے ان کے ملک پر کوئی جوابی حملہ کیا گیا تو اپنے دفاع کیلئے ناٹو ممالک کی جانب سے حفاظتی حصار کا استعمال کریں گے۔
ادھر امریکا اور اس کی10 کے قریب اتحادی ممالک کے 300 کے قریب انتہائی جدید لڑاکا طیارے لیبیا کے ساحل کے قریب سمندر میں موجود طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ جبرالڑ اور یونان کے ایئر بیسز پر تیار کھڑے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکا کے کم از کم 6 جنگی جہاز لیبیا کے ساحلوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان ساری جنگی تیاریوں کے مقابلہ میں لیبیا کے پاس چند درجن لڑاکا طیارے اور محض 500 توپیں ہیں جبکہ اس کے پاس ماہر پائلٹوں کی بھی شدید کمی ہے۔
فرانسیسی وزارت دفاع نے حملہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی طیاروں نے کرنل معمر قذافی کی حامی فوج کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا ہے اور 20 کے قریب فرانسیسی طیارے لیبیا کی فضائی ناکا بندی کر کے فضائی نگرانی کر رہے ہیں.
دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ برطانیہ بھی لیبیا کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے ۔
شمالی لیبیا میں رات گئے دھماکوں کی آوازیں سنائی دی جارہی تھیں ،لیبیا کے سرکاری ٹی وی نے کہا ہے کہ امریکی میزائلوں سے عام شہری نشانہ بنے ہیں ،سرکاری ٹی وی کے مطابق حملوں میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔ اس سے قبل فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ فرانسیسی طیارے لیبیا پر کارروائی کیلئے تیار ہیں اور لیبیا کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت کی جائے گی۔ ان حملوں کی منظوری پیرس میں یورپی یونین اور عرب ممالک کے اجلاس میں دی گئی ہے جبکہ جرمنی نے ان حملوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے کہا ہے کہ فرانسیسی جیٹ طیارے اس وقت بن غازی کے شہریوں کو لیبیائی فوج کے حملوں سے بچا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد یہ پہلی بیرونی مداخلت ہے۔ امریکا نے بھی حملوں کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔
دریں اثناءپیرس میں ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں فرانس، برطانیہ ، جرمنی ، اقوام متحدہ کے سربراہان، اور عرب لیگ کے نمائندے شریک ہوں گے۔اس اجلاس میں فوجی کارروائی کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔
ادھرنو فلائی زون کے قیام کے بعد بھی کرنل قذافی کی حامی فوج کے ٹینک باغیوں کے مضبوط گڑھ بن غازی شہر کے اندر موجود ہیں اور جنوب مشرقی حصے میں واقع یونیورسٹی کے اطراف میں لڑائی ہو رہی ہے۔بن غازی میں لیبیا کا جیٹ طیارہ گرا ہے۔ اس جیٹ طیارے میں پہلے ہی سے آگ لگی ہوئی تھی۔بن غازی کے اطراف میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا رہی ہیں ،ان حملوں میں 25افراد ہلاک اور40سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ شہر سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نکل رہی ہے۔
اسی دوران باغیوں کے رہنماءنے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ کرنل قذافی کی فوج کی جانب سے بمباری کو روکیں تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے مصطفیٰ عبدل جلیل نے غیر ملکی ٹی وی کو بتایا کہ بن غازی کے تمام اضلاع پر راکٹوں اور آرٹلری سے گولہ باری کی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل نہیں کیا تو بڑی تباہی ہو گی۔
لیبیا کے سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیرداخلہ جنرل فتح یونس نے باغیوں کی حمایت ترک کردی ہے اور واپس سرکاری کیمپ میں آگئے ہیں۔ باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہونے اور سرکاری کیمپ کی طرف رجوع کرنے کے باعث انہیں سابق عہدے پر بحال کردیا گیا ہے ۔
ادھراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ لیبیا کے مسئلہ پر دنیا کو لازمی یک زبان ہونا ہو گا۔اس سے قبل امریکا، برطانیہ، فرانس اور کچھ نامعلوم عرب ممالک نے لیبیا کو خبردار کیا کہ اگر اس نے باغیوں کے گڑھ بن غازی کی طرف پیش قدمی کو نہ روکا اورفوج کو مسراطہ اور زاویہ سے واپس نہ بلایا تو فوجی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
سیکورٹی کونسل کی قرار داد کی منظوری کے بعد امریکا کے لہجے میں یک لخت تلخی آ گئی ہے اور صدر اوباما نے جمعہ کو اپنے سخت ترین بیان میں کہا ہے کہ اگر کرنل قدافی اب بھی اقتدار سے علیحدہ نہ ہوئے تو امریکاکی فوجیں بھی لیبیا کے خلاف کارروائی میں شریک ہو جائیں گی۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ معمر قذافی اقوام متحدہ کے مطالبات کا احترام کریں یا فوجی کارروائی کا سامنا کریں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ اپنے طیاروں کو لیبیا کے خلاف کارروائی کیلئے روانہ کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں معمر قذافی کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں نے لیبیا کے معاملات میں مداخلت کی تو انہیں اپنی اس حرکت پر پچھتانا پڑے گا۔طرابلس میں سرکاری ترجمان کے مطابق معمر قذافی کا کہنا ہے کہ لیبیا میں مداخلت پر فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی او ر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو افسوس ہوگا۔لیبیا میں غیر ملکی فوجی کارروائی واضح جارحیت ہوگی ،عالمی طاقتوں کو لیبیا میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
ترجمان کے مطابق معمر قذافی نے امریکی صدر بارک اوباماا وراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی پیغامات بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ لیبیا میں عورتیں ،بچے اور مرد ان کی خاطر مرنے کیلئے تیار ہیں۔
علاوہ ازیں فرانسیسی کمپنی نے کمپنی سوفلٹ کے سربراہ لوئیک ڈیزلاس کی طرف سے جاری بیان میں کہا ہے کہ لیبیا کو زرعی اجناس کی برآمد معطل کردی ہے۔ فرانس سے لیبیاکو رواں سال کے دوران 13 لاکھ ٹن گندم برآمد کی جانی تھی۔
دوسری جانب اٹلی نے لیبیا میں نو فلائی زون کے قیام کیلئے عالمی برادری کو اپنی7 ہوائی اڈے فراہم کرنے کی پیشکش کردی۔ اٹلی کے وزیرخارجہ فرینکوفریٹنی نے کہا کہ اگر عالمی فورسز کی جانب سے لیبیا میں نوفلائی زون کے قیام کے بدلے ان کے ملک پر کوئی جوابی حملہ کیا گیا تو اپنے دفاع کیلئے ناٹو ممالک کی جانب سے حفاظتی حصار کا استعمال کریں گے۔
ادھر امریکا اور اس کی10 کے قریب اتحادی ممالک کے 300 کے قریب انتہائی جدید لڑاکا طیارے لیبیا کے ساحل کے قریب سمندر میں موجود طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ جبرالڑ اور یونان کے ایئر بیسز پر تیار کھڑے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ امریکا کے کم از کم 6 جنگی جہاز لیبیا کے ساحلوں کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان ساری جنگی تیاریوں کے مقابلہ میں لیبیا کے پاس چند درجن لڑاکا طیارے اور محض 500 توپیں ہیں جبکہ اس کے پاس ماہر پائلٹوں کی بھی شدید کمی ہے۔
آپ کی رائے