یمن: 46 مظاہرین کی ہلاکت کے بعد ہنگامی حالت کا نفاذ

یمن: 46 مظاہرین کی ہلاکت کے بعد ہنگامی حالت کا نفاذ
yemen_massacreصنعا(ایجنسیاں)یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس اور حکومت نوازوں کی فائرنگ سے چھیالیس افراد کی ہلاکت کے بعد صدر علی عبداللہ صالح نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

صدر علی عبداللہ صالح نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”قومی سلامتی کونسل یمن بھر میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتی ہے۔ ہنگامی حالت کے تحت شہریوں کے اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی ہو گی”۔
عینی شاہدین اور میڈیکل ذرائع کے مطابق حکومت کے حامی”ٹھگوں” نے جامعہ صنعا کے نزدیک واقع ایک چوک میں صدر علی صالح کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد پر اپنے مکانوں اور خفیہ جگہوں سے فائرنگ کی ہے۔میڈیکل ذرائع نے چھیالیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔واقعے میں تین سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ایک اہلکار کے مطابق مرنے والوں اور زخمیوں کو سر،گردن اور چھاتی میں گولیاں ماری گئی ہیں۔
حزب اختلاف نے ایک ہی دن میں اتنی زیادہ تعداد میں مظاہرین کی ہلاکت کے بعد حکومت کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ صدر صالح کے اقتدار چھوڑنے تک ان کے خلاف مظاہرے جاری رکھے جائیں گے۔جامعہ صنعا کے نزدیک واقع چوک میں ہزاروں مظاہرین 21فروری سے یمنی صدر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
گذشتہ روز جامعہ صنعا میں حکومت کے خلاف دھرنا دینے والے حکومت مخالفین پر نقاب پوش مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔حکومت مخالف مظاہرین نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آور بندوقوں ،ڈنڈوں اور خنجروں سے مسلح تھے اور وہ حکومت کے وفادار ٹھگ لگ رہے تھے۔
مظاہرین نے آج نمازجمعہ کے بعد صنعا یونیورسٹی سے شہر کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی فورسز نے انہیں روک لیا جس کے بعد ان کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں اورحکومت کے حامیوں کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی گئی۔آج یمن کے جنوبی شہر عدن اور مغربی شہر حدیدہ میں بھی ہزاروں افراد نے صدر صالح کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔
امریکا نے یمن کے معاملے میں یکسر مختصر موقف اپنا رکھاہے۔وہ ابھی تک صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت کررہا ہے۔ اس نے وہاں مظاہرین پر تشدد کی تو مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ انہیں پُرامن احتجاج کا حق حاصل ہے اور سیاسی بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔
ہزاروں یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف گذشتہ ڈیڑھ ایک ماہ سے ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کررہے ہیں اور وہ ان سے فوری اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔دوسری جانب صدر صالح کے حامی بھی مخالفین کے مقابلے میں مظاہرے کررہے ہیں۔
یمنی صدر نے گذشتہ ماہ صنعا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے 2013ء میں اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اختتام سال سے قبل نئے آئین پرریفرینڈم کرایا جائے گا جس میں واضح طور پر صدر اور پارلیمان کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا تعین کیا جائے گا۔انہوں نے ملک میں نئے انتخابی قوانین وضع کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت پر زوردیا تھا لیکن حزب اختلاف نے ان کے ان اعلانات کو مسترد کردیا تھا۔
علی عبداللہ صالح نے اس سے پہلے اپنی سکیورٹی فورسز کو حکومت مخالف مظاہرین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں سے گریز کریں۔انہوں نے مظاہرین پر بھی زوردیا کہ وہ ایسے دراندازوں سے چوکنے رہیں جوان کی صفوں میں گھس کرتشدد کو ہوا دے سکتے ہیں لیکن آج ان کے حامیوں نے ایک ہی دن میں تیس افراد کو ہلاک کردیا ہے۔
حکمراں جماعت جنرل پیپلزکانگریس کے حامی پہلے بھی صنعا اور دوسرے شہروں میں آتشیں ہتھیاروں، آہنی راڈوں اور ڈنڈوں سے مظاہرین پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔مظاہرین نے جامعہ صنعا کے قریب کیمپ لگا رکھے ہیں۔ان میں عوام کے علاوہ ماہرین تعلیم، لکھاری ، فن کار اور اسکالر شامل ہوچکے ہیں۔
علی عبداللہ صالح 1978ء سے یمن کے صدر چلے آرہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خلاف عوامی احتجاج کے بعد اقتدار نہ چھوڑنے کا اعلان کررکھا ہے۔ان کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں بے روزگارنوجوان پیش پیش ہیں۔واضح رہے کہ یمن کی دوکروڑ تیس لاکھ آبادی میں بے روزگاری کی شرح پینتیس فی صد ہے اور چالیس فی صد لوگ یومیہ دوڈالرز سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔غربت کا شکار اس ملک کی ایک تہائی آبادی دائمی بھوک کا شکار ہے، لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل نہیں اور سرکاری اداروں میں بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں