مصر کا مستقبل….؟

مصر کا مستقبل….؟
egypt_8عالم عرب میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ تیونس کے ”مرد آہن“ زین العابدین بن علی کے بعد مصر پر 30 سال سے آتش وآہن کی قوت سے برسراقتدار صدر حسنی مبارک بھی رخصت ہونے پر مجبور ہوگئے ۔

تبدیلی کی موجودہ لہر کا مرکز جس کا آغاز عوامی مظاہروں سے ہوا ہے‘ شمالی افریقہ کے عرب ممالک ہیں‘ لیکن احتجاج کی لہر جزیرہ نمائے عرب کے اہم ملک یمن اور اسرائیل کے ایک اور پڑوسی اردن تک پہنچ گئی ہے۔ حسنی مبارک ایک روز پہلے تک اقتدار چھوڑنے سے انکاری تھے لیکن وہ 24 گھنٹے بھی اپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکے۔ یہ ہے فوجی طاقت کے زعم میں حکومت کرنے والے ”مردان آہن“ کی حیثیت۔
تیونس میں 23 دن کے عوامی مظاہروں نے زین العابدین بن علی کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا‘ جبکہ مصری صدر حسنی مبارک 18 دن بھی مزاحمت نہیں کرسکے۔ تیونس کے بعد مصر میں آنے والی تبدیلی پورے خطے کی سیاست کو متاثر کرے گی۔
مصر کی تاریخ میں 18 دن تک مسلسل عوامی مظاہرے کا غیرمعمولی تجربہ سامنے آیا ہے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد مصر کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ تیونس اور مصر میں عوامی احتجاج قیات کے بغیر ہے۔ ان دونوں ممالک میں جبر و تشدد کا شکار رہنے والی اسلامی تحریکیں اخوان المسلمون وغیرہ ایک سیاسی گروہ کے طور پر موجود ہیں لیکن ان کو فیصلہ کن حیثیت ابھی حاصل نہیں ہے۔ ان دونوں ممالک میں عوام نے شخصی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرنے اور بظاہر ناقابل شکست آمروں کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔ لیکن اسے انقلاب کا نام دیا جانا بہت مشکل ہے۔
ہر ایسے ملک میں جہاں جبر و استبداد کی حکمرانی ہو اور ایک شخص استیصال کی علامت بن جاتا ہو وہاں اس کی رخصتی بھی جشن کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسا ہی تیونس میں ہوا اور ایسا ہی مصر میں بھی ہورہا ہے۔ لیکن عملاً ”چہرے کی تبدیلی“ہی واقع ہوئی ہے۔ حسنی مبارک کے استعفے کے بعد مصر پر عملاً فوج کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے۔ 18 دن کے عوامی مظاہروں کے بعد فوج نے مصر کا نظام حکومت سنبھال لیا ہے۔ حسنی مبارک نے عوامی احتجاج اور شورش کو تحلیل کرنے کے لیے خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور سیاسی کارکنوں پرتعذیب و تشدد کے زمہ دار عمر سلیمان کو نائب صدر مقرر کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ انہوں نے ستمبر کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا بھی اعلان کیا اپنے بیٹے کی سیاسی جانشینی سے بھی دستبرداری اختیار کی لیکن یہ اقدامات ان کے کام نہیں آئے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مصر میں اٹھنے والی سیاسی احتجاج کی لہر نے امریکا ‘ اسرائیل کو مضطرب کردیا تھا۔
امریکی صدر بارک اوباما نے مصری فوج کو حکم دے دیا تھا کہ وہ حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مظاہرین پر طاقت استعمال نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ بارک اوباما نے بھی حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ ہونے کی ہدایت جاری کردی تھی۔ کچھ دیر تو حسنی مبارک نے مزاحمت کی اور ”بیرونی ڈکٹیشن “ لینے سے انکار کیا‘ لیکن جن حکمرانوں کی طاقت کا مرکز ان کے اپنے ملک میں نہیں ہوتا وہ زیادہ مزاحمت نہیں کرسکتے۔
مصر سمیت مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک کا شخصی حکمرانی کا نظام امریکا کے وسیع تر ایجنڈے میں رکاوٹ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ مسلم عوام اور ان کے درمیان تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ ان حالات نے انقلاب کے امکانات پیدا کردیے ہیں اس لیے وقت سے پہلے اپنے وفادار اور آلہ کار حکمرانوں کی رخصتی کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔
حسنی مبارک صرف اس لیے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے کہ ملک میں موجود طاقت کے مرکز فوج نے اپنے سربراہ کے لیے عوامی احتجاج کو کچلنے سے انکارکردیا‘ دوسری طرف ملک سے باہر موجود طاقت کے مرکز واشنگٹن نے بھی ہری جھنڈی دکھادی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مصر میں وہ کشمکش جو 50 ‘55 سال سے جاری ہے اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مصر کے حسن النبانے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا ہے۔ جمال عبدالناصر اور انور سادات جیسے جابروں کے جانشین حسنی مبارک کو 18 دن کے عوامی احتجاج نے شکست دے دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل کا مصر حسن البنا‘ سید قطب جیسے شہداءکا ملک ہوگا یا امریکا اور مغرب کی غلام فوج اپنے عوام کو کوئی نیا کھلونا دے کر بہلا دے گی۔یاد رہے کہ اقتدار نائب صدر نے نہیں فوج کی کونسل نے سنبھالا ہے۔

(بہ شکریہ اداریہ جسارت)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں