شہباز بھٹی کا قتل۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش

شہباز بھٹی کا قتل۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش
shahbaz-bhattiسابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی واضح یقین دہانی کے بعد کہ ”ناموس رسالت قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی“ یہ سمجھا جارہا تھا کہ ناموس رسالت کا معاملہ ٹھنڈا پڑگیا ہے لیکن وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل سے یہ تاثر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا اور یہ قتل بھی ناموس رسالت کے سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے۔

ناموس رسالت کے مسئلے پر سلمان تاثیر کے قتل پر قوم دو حصوں میں تقسیم تھی، ایک طبقہ قاتل پر پھول نچھاور کررہا تھا جبکہ دوسرا طبقہ اس کی مذمت اور سلمان تاثیر کو شہید قرار دے کر ان کی یاد میں شمعیں روشن کررہا تھامگر شہباز بھٹی کے قتل کے بعد ہر مکتبہ فکر نے اس قتل کی مذمت کی ہے جس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں جو مذہبی رواداری کے لحاظ سے ایک خوش آئند بات ہے۔
شہباز بھٹی کے قتل کے بعد کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے لیکن ذمہ داریاں قبول کرنے کا معاملہ ہمیشہ مشکوک رہا ہے مگر اس کے باوجود زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس واقعے کو دوسرے رخ سے بھی دیکھنا ہوگا۔
قتل کے بعد جائے وقوعہ پر ملنے والے پمفلٹس سے یہ تاثر ابھرا کہ انہیں طالبان نے قتل کیا ہے لیکن اس سے قبل طالبان نے دہشت گردی کی جو بھی وارداتیں اور قتل کئے اس میں کبھی اس قسم کے پمفلٹس استعمال نہیں کئے گئے۔ قتل کے بعد جائے وقوعہ سے ملنے والے پمفلٹس پر رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم کا اسم مبارک، قرآنی آیات اور ان کے ترجمے بھی درج تھے۔
طالبان ایک مذہبی جماعت ہے جس نے نبی کریم صلى الله عليہ وسلم کی شریعت کے نفاذ کیلئے ہتھیار اٹھارکھے ہیں، طالبان کبھی نہیں چاہیں گے کہ پیارے نبی صلى الله عليہ وسلم کے نام کی بے حرمتی ہو۔ آج کے دور میں طالبان کو ایک ٹریڈ مارک کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور ہر دہشت گردی کی ذمہ داری طالبان پر ڈال کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔
شہباز بھٹی کے قتل کے محرکات کو ناموس رسالت سے ہٹ کر اس پس منظر میں بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ اپنے عروج پر ہے اور 14 مارچ کو وزارت خارجہ نے لاہور ہائیکورٹ میں ریمنڈ ڈیوس کے استثنیٰ کے بارے میں اپنا موقف بیان کرنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں شہباز بھٹی کے قتل کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالناہو۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ہماری ایجنسیاں اس قتل میںXe انٹرنیشنل جو بلیک واٹر کا نیا نام ہے کے ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کررہیں۔ حالیہ دنوں میں اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ سی آئی اے اور ”را“ طالبان اوردوسری تنظیموں میں گھس آئے ہیں۔
حکومت کا یہ موقف ہے کہ شہباز بھٹی کا قتل ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا کیونکہ انہوں نے سیکورٹی اسکواڈ کو اپنے ساتھ لے جانے سے منع کردیا تھا ۔
آئی بی کے سابق سربراہ نے بتایا کہ اہم تنصیبات پر سیکورٹی کے ساتھ سادہ کپڑوں میں کچھ پولیس اہلکار بھی تعینات کئے جاتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سیکورٹی اہلکار اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سلمان تاثیر کے سیکورٹی گارڈز کی طرح شہباز بھٹی کے سیکورٹی گارڈز نے بھی جان بوجھ کر شہباز بھٹی کو اکیلا چھوڑ دیا ہو۔ حکومتی اداروں کو چاہئے کہ وہ تحقیقات میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہ کریں۔
وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ ”دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ان کا نام پہلے نمبر پر، شیری رحمن اور فوزیہ وہاب کا نام دوسرے تیسرے نمبر پر ہے“ عوام میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے اور یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ جو حکومت اسلام آباد جیسے شہر میں اپنے گورنر اور وفاقی وزیر کا تحفظ نہ کرسکی وہ عوام کو کیا تحفظ فراہم کرے گی۔
ترقی یافتہ ممالک میں اگر ایک ٹرین بھی پٹڑی سے اترجاتی ہے تومتعلقہ وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں دن دہاڑے ایک وفاقی وزیر کا قتل ہوا لیکن کوئی تحقیقاتی ادارہ یا حکومتی شخصیت اس قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کے بجائے اپنی ذمہ داری کو قبول کرے۔ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں مگر حقیقت میں ہم خود اپنے دشمن ہیں۔ سیکڑوں امریکیوں کو بغیر کسی سیکورٹی کلیئرنس اور تحقیقات کے ویزا جاری کرنا کیا ملک دشمنی کے مترادف نہیں۔ اس طرح ہم نے سیکڑوں ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو اجازت دے دی کہ وہ پاکستان آکر بلاخوف و خطر دندناتے پھریں اور پاکستان غیر مستحکم کرنے کا گھناؤنا کھیل،کھیل سکیں۔

اشتیاق بیگ
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں