لیبیا کی فضائی حدود بند کرنے پر غور

لیبیا کی فضائی حدود بند کرنے پر غور
libya_tankامریکی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اب بھی لیبیا کی صورتحال کے جواب میں شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے میں شامل اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوجی کارروائی کے امکان پر غور کر رہی ہے۔

خلیج فارس کے عرب ممالک نے لیبیا میں فوجیوں کی طرف سے شہریوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ لیبیا کی فضائی حدود میں پرواز پر پابندی لگائی جائے۔
برطانیہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے ارکان کے ساتھ مل کر لیبیا کی فضائی حدود کی بندش ے لیے قرارداد کی منظوری پر کام کر رہا ہے۔ تاہم روس نے کسی بھی فوجی کارروائی کی مخالت دہرائی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لیبیا نے عالمی تنظیم کی ٹیم کو لیبیا میں آنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ ملک میں جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کا جائزہ لے سکے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لیبیا نے اس کی ٹیم کو لیبیا میں آنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ ملک میں جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کا جائزہ لیا جا سکے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پہلے یہ ٹیم دارالحکومت طرابلس جائے گی۔ اقوام متحدہ کے ہنگامی صورتحال کے لیے رابطۂ کار ویلری ایموس نے کہا ہے کہ لیبیا کے شہر مصراتہ میں، جہاں کرنل معمر قذافی کے حامیوں اور مخالفین میں لڑائی ہو رہی ہے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری رسائی دی جائے۔
ایموس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طبی عملہ اور ادویات فوری طور پر درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغربی لیبیا میں ہلالِ احمر ادویات اور ایمبولینس پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب کرنل قذافی نے کہا ہے کہ لیبیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور مغرب کا ساتھی ہے اور تارکینِ وطن کی یورپ میں داخلے کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
فرانس کے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ان کے امریکہ اور یورپی یونین کے شاتھ روابط جو بڑے اچھے تھے اب تبدیل ہو گئے ہیں۔
انہوں نے غیر ملکی میڈیا پر الزام عائد کیا کہ وہ لیبیا کی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب مخالفین کی نیشنل لیبیا کونسل کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے اس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک کرنل قذافی اقتدار سے نہیں ہٹ جاتے۔
کونسل نے یہ بات اس وقت کہی جب لیبیا کے سابق وزیر اعظم نے قومی مذاکرات کی تجویز دی تھی۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں