ایمان، نیک اعمال اوراخلاق حسنہ کامیابی کا راز

ایمان، نیک اعمال اوراخلاق حسنہ کامیابی کا راز
molana_25خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اس جمعے کے خطبے کا آغاز قرآنی آیت: “وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى أَفَلَا تَعْقِلُونَ”، کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا بنی نوع انسان زمانہ حال اور ماضی میں ہمیشہ دو متضاد مگر دلکش وجاذب نظر چیزوں کا سامنا کرتا چلا آرہا ہے۔ ایک دنیا ومتاع دنیا کی کشش ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہے، ہر انسان میں دنیا کی رغبت پائی جاتی ہے، اس کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں کرتا ہے تا کہ اپنے زعم میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔

انہوں نے مزید کہا اسی چیز نے لوگوں کو قتل وغارتگری پر اکسایا، ہزاروں افراد قتل ہوئے یا ہوتے چلے آرہے ہیں تا کہ چند لوگ اپنے دنیوی مقاصد حاصل کریں اور اپنی شہوتوں کو تسکین دلا سکیں۔
دوسری جانب ہر انسان میں ایک ایسی قوت بھی ہے جو اسے ایمان، دینداری اور نیک کاموں کی ترغیب دیتی ہے، انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور وحی کا مقصد اسی قوت کو جگانا اور صیقل دینا تھا۔ دراصل انبیاء (ع) اور ان کے پیروکار ہمیشہ لوگوں کو اسی قوت جاذبہ سے مجذوب کرنے کی کوشش کرتے تھے اور یہ بتاتے تھے کہ انسان کی عظمت وعزت اسی قوت کی پیروی میں ہے نہ کہ شہوات ودنیا کی اتباع میں۔
انبیاء علیہم السلام کی دعوت یہی تھی کہ اے لوگو! تمہاری کرامت وعزت گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال میں ہے، تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ ملائکہ کی صفات سے آراستہ ہوجاؤ، اگر تم دنیا کے عاشق بن گئے اور عہدوں کے پیچھے لگ گئے تو شیطان کا ساتھی بنو گے اور اسفل السافلین تمہارا مقدر ہے۔ یہ دنیا تمہارے لیے خلق ہوئی مگر آپ کی تخلیق دنیا کے لیے نہیں ہوئی ہے۔ آپ کی خلقت اللہ کی عبادت کے لیے ہوئی تاکہ آپ اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرو۔
مولانا عبدالحمید نے کہا صحابہ کرام کامیابی کی چوٹی تک پہنچ گئے تھے چونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو لبیک کہا، ایمان، اچھے اعمال اور نیک اخلاق وعادات سے آراستہ ہوئے، دنیا ومناصب اور شہوات سے دور ہوگئے، آج بھی اگر کوئی فلاح وکامیابی چاہتاہے تو اس کا طریقہ صرف یہی ہے۔

عبادت اور توکل، کامیابی کی کلید:
انہوں نے مزید کہا کتاب وسنت کی طرف رجوع اور توکل علی اللہ کامیابی کی کلید ہے، ہمیں اللہ تعالی کی عبادت کرکے اس کی راہ میں استقامت دکھانی چاہیے، دوسروں کی نجات کیلیے محنت کرنی چاہیے۔
آج لوگ مکمل آزادی چاہتے ہیں تا کہ کسی حد وقانون کے پابند نہ ہوں حالانکہ حقیقی آزادی شریعت اسلامیہ کے سایے میں ہے۔ لوگ کامیابی وسعادت چاہتے ہیں لیکن اس کی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں قوانین الہیہ کی پیروی کرتے ہوئے دوسروں کو بھی سعادت کی راہ پر چلنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے حاضرین کو ترغیب دی کہ رات کا کچھ حصہ اللہ تعالی کی عبادت کیلیے مختص کردیں اور نماز پڑھتے ہوئے پوری یکسوئی کے ساتھ خالق کی جانب متوجہ ہوں۔ قلب وزبان دونوں اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔

سنی اسٹیوڈنٹس کی علماء ومفکرین کیساتھ کانفرنس تاخیر سے منعقد ہوگی:
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایران کے سنی اسٹیوڈنٹس کی سالانہ کانفرنس جو تین مارچ کو منعقد ہونے والی تھی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ کانفرنس کینسل نہیں ہوچکی ہے بلکہ قدرے تاخیر سے منعقد ہوگی۔
انہوں نے کہا بعض وجوہات کی بناپر یہ کانفرنس تین مارچ کو منعقد نہ ہوسکی لیکن بہر حال یہ کانفرنس منعقد کرلیں گے، ٹائم ٹیبل آیندہ اعلان ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا مذہبی آزادی اہل سنت ایران کا قانونی حق ہے، ہم اس حق کو معاشرے کے تمام افراد کیلیے محفوظ سمجھتے ہیں۔ مسلم مسالک کے درمیان بھائی چارہ واتحاد اس وقت تک قائم نہیں ہوگا جب تک ان کے شہری حقوق کا احترام کرکے سب کے حقوق کی پاسداری کی جائے۔
انہوں نے تاکید کی حکام کو نعرے کے مرحلے سے نکل کر عمل کے میدان میں اترنا چاہیے۔ یہ ترقی اور نعرے سے شعور تک کا سفر اس وقت ممکن ہوگا جب قانون کا احترام کیا جائے، شیعہ سنی افراد کے درمیان برابری وتعادل قائم کیا جائے۔
ایران کے سنی مسلمان ملک کے کسی بھی علاقے میں ہوں مذہبی آزادی ان کا قانونی حق ہے۔ کسی با اثر عنصر کو سنی شہریوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

دینی وعصری علوم ساتھ ساتھ ہوں پھر انسان ترقی کرے گا:
نامور سنی عالم دین نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوران دینی وعصری علوم کو انسانی معاشرے کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا جب یہ دونوں علوم اکٹھے ہوں پھر معاشرہ کامیاب وترقی یافتہ ہوگا۔ جب لوگ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی وشرعی علوم سے بھی فیض یاب ہوں پھر ان کی دنیا وآخرت کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا: الحمدللہ مسلمانوں کیلیے دونوں علوم حاصل کرنے کے اسباب میسر ہیں تا کہ اس دنیا اور آخرت کی زندگی دونوں میں کامیاب ہوں۔
آخر میں شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا یہ ضروری ہوچکا ہے کہ علمائے کرام اور اہل مدارس فراغت کے بعد اکیڈمک تعلیم حاصل کریں اور اسی طرح سٹیوڈنٹس اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد دینی تعلیم حاصل کریں اور قرآن وسنت کے علوم سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوجائیں۔ اس طرح ہم ایک مثالی معاشرہ قائم کرسکیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں