طرابلس(بى بى سى) لیبیا کے شہر زاویہ میں شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں جہاں کرنل قدافی کی وفادار فوج شہر کو باغیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے کارروائی میں مصروف ہے۔
اطلاعات کے مطابق تازہ جھڑپوں میں بہت سے افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں اور ایک عینی شاہد نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد پچاس ہے۔
راس لانوف میں بھی جہاں تیل کے ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی بندرگاہ ہے، شدید لڑائی ہو رہی ہے جبکہ دارالحکومت طرابلس میں سکیورٹی افواج نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا ہے۔
کرنل قدافی کے بیٹے نے ان خبروں کی ترید کی ہے کہ فضائیہ نے طرابلس میں مظاہرین پر بمباری کی ہے۔
زاویہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہاں باغیوں کے سب سے سینیئر رہنما مارے گئے ہیں۔ علاقے کے ایک رہائشی نے بی بی سی عربی ٹی وی کو بتایا کہ بہت سے لوگ اس وقت مارے گئے جب پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔
رائٹر سے بات کرتے ہوئے ایک عینی شاہد نے کہا کہ وہ ہسپتال سے واپس آئے ہیں جہاں بہت سے لوگ مردہ پڑے ہیں اور بہت سے زخمی ہیں۔
اس سے قبل کرنل قدافی کے گڑھ طرابلس میں جمعہ کی نماز کے بعد سینکڑوں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی افواج نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
تاجوراء سے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ وہاں مظاہرین لیبیا کے پرچم کو نذرِ آتش کیے۔
اس سے قبل خفیہ پولیس نے علاقے میں سکیورٹی سخت کر دی تھی اور کرنل قدافی کے طرف داروں نے ٹریفک کا نظام سنبھالنے کے لیے چوکیاں بنا لی تھیں۔
ادھر مشرقی علاقے میں جہاں باغیوں کا کنٹرول ہے، حکومتی افواج نے فضائی حملے کیے ہیں۔
تاجوراء میں بی بی سی کے نامہ نگار وایر ڈیویس کا کہنا تھا کہ مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے اور کرنل قدافی کی حکومت گرانے کے نعرے اور مطالبے کر رہے تھے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے ایک رپورٹر نے کہا ہے کہ سکیورٹی افواج نے اشک آور گیس کا استعمال کیا۔
جمعہ کی دوپہر جب نماز شروع ہوئی تو ضلع کی بڑی مسجد میں صورتِ حال کشیدہ تھی۔ مسجد کے اطراف میں خفیہ پولیس کے اہلکار جمع تھے۔
تاجوراء کی بڑی سڑکوں پر جہاں کرنل قدافی کے وفادار کاروں کی تلاشی لے رہے تھے وہاں فوج بھی بڑی تعداد میں موجود تھی۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق رات گئے مساجد بند کر دی گئیں اور کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور انٹر نیٹ سروس بھی کاٹ دی گئی۔
حکام نے طرابلس کے بڑے میڈیاا ہوٹل سے غیر ملکی صحافیوں کو باہر جانے سے روک دیا اور کہ ایسا انھیں القاعدہ سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بعد میں رپورٹرز کو بتایا گیا کہ اگر وہ سرکاری بسوں پر سفر کریں اور حکومت کے منتخب کردہ مقامات پر جانے کی شرط پوری کریں تو انھیں ہوٹل سے باہر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
عینی شاہدوں کے مطابق گزشتہ جمعہ احتجاجی مظاہرین پر فوج کی طرف سے فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں خون خرابہ ہوا تھا۔
راس لانوف میں بھی جہاں تیل کے ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی بندرگاہ ہے، شدید لڑائی ہو رہی ہے جبکہ دارالحکومت طرابلس میں سکیورٹی افواج نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا ہے۔
کرنل قدافی کے بیٹے نے ان خبروں کی ترید کی ہے کہ فضائیہ نے طرابلس میں مظاہرین پر بمباری کی ہے۔
زاویہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہاں باغیوں کے سب سے سینیئر رہنما مارے گئے ہیں۔ علاقے کے ایک رہائشی نے بی بی سی عربی ٹی وی کو بتایا کہ بہت سے لوگ اس وقت مارے گئے جب پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔
رائٹر سے بات کرتے ہوئے ایک عینی شاہد نے کہا کہ وہ ہسپتال سے واپس آئے ہیں جہاں بہت سے لوگ مردہ پڑے ہیں اور بہت سے زخمی ہیں۔
اس سے قبل کرنل قدافی کے گڑھ طرابلس میں جمعہ کی نماز کے بعد سینکڑوں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی افواج نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
تاجوراء سے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ وہاں مظاہرین لیبیا کے پرچم کو نذرِ آتش کیے۔
اس سے قبل خفیہ پولیس نے علاقے میں سکیورٹی سخت کر دی تھی اور کرنل قدافی کے طرف داروں نے ٹریفک کا نظام سنبھالنے کے لیے چوکیاں بنا لی تھیں۔
ادھر مشرقی علاقے میں جہاں باغیوں کا کنٹرول ہے، حکومتی افواج نے فضائی حملے کیے ہیں۔
تاجوراء میں بی بی سی کے نامہ نگار وایر ڈیویس کا کہنا تھا کہ مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے اور کرنل قدافی کی حکومت گرانے کے نعرے اور مطالبے کر رہے تھے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے ایک رپورٹر نے کہا ہے کہ سکیورٹی افواج نے اشک آور گیس کا استعمال کیا۔
جمعہ کی دوپہر جب نماز شروع ہوئی تو ضلع کی بڑی مسجد میں صورتِ حال کشیدہ تھی۔ مسجد کے اطراف میں خفیہ پولیس کے اہلکار جمع تھے۔
تاجوراء کی بڑی سڑکوں پر جہاں کرنل قدافی کے وفادار کاروں کی تلاشی لے رہے تھے وہاں فوج بھی بڑی تعداد میں موجود تھی۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق رات گئے مساجد بند کر دی گئیں اور کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور انٹر نیٹ سروس بھی کاٹ دی گئی۔
حکام نے طرابلس کے بڑے میڈیاا ہوٹل سے غیر ملکی صحافیوں کو باہر جانے سے روک دیا اور کہ ایسا انھیں القاعدہ سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بعد میں رپورٹرز کو بتایا گیا کہ اگر وہ سرکاری بسوں پر سفر کریں اور حکومت کے منتخب کردہ مقامات پر جانے کی شرط پوری کریں تو انھیں ہوٹل سے باہر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
عینی شاہدوں کے مطابق گزشتہ جمعہ احتجاجی مظاہرین پر فوج کی طرف سے فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں خون خرابہ ہوا تھا۔
آپ کی رائے