طرابلس/دبئی(العربیہ.نیٹ، ایجنسیاں) لیبیا کے صدر معمر قذافی نے القاعدہ کو اپنے ملک میں حالیہ تمام تر بدامنی اور شورش کا ذمے دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کی قیادت میں اس تنظیم کے ساتھ بات چیت کو تیار ہیں۔
انہوں نے یہ پیش کش بدھ کو اپنی ایک نشری تقریر میں کی ہے۔ کرنل قذافی نے کہا کہ ان کے ملک میں حالیہ شورش تیسرے بڑے شہر بیضاء سے شروع ہوئی تھی جہاں جنگجووں کا ایک سیل موجود تھا اوریہ لوگ افغانستان اور عراق سے فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد آہستہ اہستہ لیبیا میں گھس آئے تھے۔
کرنل قذافی نے لیبیا کی صورت حال سے متعلق اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے دہشت گردوں نے بیضا سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ بن غازی تک پھیل گئے جہاں انہوں نے لوگوں پر کرفیو نافذ کرنا شروع کر دیا لیکن اب وہاں کے لوگ القاعدہ سے گلو خلاصی کے لیے لیبی حکومت کی مدد کے طلب گار ہیں۔
لیبی صدر نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنےآخری مرد اور آخری عورت تک لڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ وہ ملک میں آئینی ترامیم اور قانونی اصلاحات کے لیے دوسرے فریقوں سے بات چیت کو تیار ہیں لیکن ایسا تشدد کے بغیر ہو گا۔ لیبی صدر نے پیش کش کی کہ وہ ہتھیار پھینکنے والوں کو عام معافی دے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی مداخلت سے ہزاروں لیبی جانیں چلی جائیں گی۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور نیٹو پر زور دیا کہ وہ لیبیا میں پیش آئے واقعات سے متعلق حقائق جاننے کے لیے تحقیقات کریں۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کو دوبارہ نو آبادی بنانے اور اس کی تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ایک سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔
”میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ ہلاک ہونے والے پُرامن مظاہرین کو تلاش کریں۔ امریکا، فرانس یا کسی بھی ملک میں اگر لوگ فوجی اسٹورز پر حملے کریں اور ہتھیار لوٹنے کی کوشش کریں،تو انہیں گولی مار دی جائے گی”۔ کرنل قذافی کا اپنی تقریر میں کہنا تھا۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور نیٹو پر زوردیا کہ وہ حقائق تلاش کرنے والی کمیٹیاں تشکیل دیں اور اس بات کی تحقیقات کریں کہ لیبیا میں لوگ کیسے مارے گئے ہیں۔معمر قذافی نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ لیبیا کی سرزمین اور تیل پر کنٹرول کے لیے ایک سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔
لیبی صدر نے کہا کہ ان کے تمام عوام ان کی حمایت کرتے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ اقوام متحدہ کی کونسل نے لیبیا سے باہر موجود نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر قراردادوں کو منظور کر دیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ان کے اتحادی ہی لیبیا کے خلاف ایسی قراردادوں کی حمایت کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے بدھ کو لیبیا کی یواین انسانی حقوق کونسل کی رکنیت معطل کر دی ہے اور تین روز قبل سلامتی کونسل نے لیبیا کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کے لیے قرارداد کی منظوری دی تھی۔ اس قرارداد کے تحت کرنل قذافی، ان کے خاندان اور سرکردہ عہدے داروں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے، لیبی حکومت پر اسلحے کی خرید وفروخت پر پابندی عاید کردی تھی اور حکمران طبقے کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
لیبی صدر نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ان کی تنخواہ صرف سات سو ترانوے ڈالرز ہے جبکہ اخباری اطلاعات میں ان کے اثاثوں کی مالیت اربوں ڈالرز بیان کی گئی ہے۔کرنل قذافی جب یہ تقریر کررہے تھے تو مجمع ان کے حق میں اور باغیوں کے خلاف نعرے بازی کر رہا تھا۔
کرنل قذافی نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ لیبیا میں کوئی مظاہرے ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف بن غازی میں ایک مظاہرہ ہوا تھا۔ انہوں نے القاعدہ کو ملک میں حالیہ شورش اور بدامنی کا تمام تر ذمے دار قراردیتے ہوئے کہا کہ” القاعدہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے مظاہرے نہیں کرتی”۔
کرنل قذافی نے لیبیا کی صورت حال سے متعلق اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے دہشت گردوں نے بیضا سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ بن غازی تک پھیل گئے جہاں انہوں نے لوگوں پر کرفیو نافذ کرنا شروع کر دیا لیکن اب وہاں کے لوگ القاعدہ سے گلو خلاصی کے لیے لیبی حکومت کی مدد کے طلب گار ہیں۔
لیبی صدر نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنےآخری مرد اور آخری عورت تک لڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ وہ ملک میں آئینی ترامیم اور قانونی اصلاحات کے لیے دوسرے فریقوں سے بات چیت کو تیار ہیں لیکن ایسا تشدد کے بغیر ہو گا۔ لیبی صدر نے پیش کش کی کہ وہ ہتھیار پھینکنے والوں کو عام معافی دے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی مداخلت سے ہزاروں لیبی جانیں چلی جائیں گی۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور نیٹو پر زور دیا کہ وہ لیبیا میں پیش آئے واقعات سے متعلق حقائق جاننے کے لیے تحقیقات کریں۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کو دوبارہ نو آبادی بنانے اور اس کی تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ایک سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔
”میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ ہلاک ہونے والے پُرامن مظاہرین کو تلاش کریں۔ امریکا، فرانس یا کسی بھی ملک میں اگر لوگ فوجی اسٹورز پر حملے کریں اور ہتھیار لوٹنے کی کوشش کریں،تو انہیں گولی مار دی جائے گی”۔ کرنل قذافی کا اپنی تقریر میں کہنا تھا۔
انہوں نے اقوام متحدہ اور نیٹو پر زوردیا کہ وہ حقائق تلاش کرنے والی کمیٹیاں تشکیل دیں اور اس بات کی تحقیقات کریں کہ لیبیا میں لوگ کیسے مارے گئے ہیں۔معمر قذافی نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ لیبیا کی سرزمین اور تیل پر کنٹرول کے لیے ایک سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔
لیبی صدر نے کہا کہ ان کے تمام عوام ان کی حمایت کرتے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ اقوام متحدہ کی کونسل نے لیبیا سے باہر موجود نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر قراردادوں کو منظور کر دیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ان کے اتحادی ہی لیبیا کے خلاف ایسی قراردادوں کی حمایت کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے بدھ کو لیبیا کی یواین انسانی حقوق کونسل کی رکنیت معطل کر دی ہے اور تین روز قبل سلامتی کونسل نے لیبیا کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کے لیے قرارداد کی منظوری دی تھی۔ اس قرارداد کے تحت کرنل قذافی، ان کے خاندان اور سرکردہ عہدے داروں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے تھے، لیبی حکومت پر اسلحے کی خرید وفروخت پر پابندی عاید کردی تھی اور حکمران طبقے کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
لیبی صدر نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ان کی تنخواہ صرف سات سو ترانوے ڈالرز ہے جبکہ اخباری اطلاعات میں ان کے اثاثوں کی مالیت اربوں ڈالرز بیان کی گئی ہے۔کرنل قذافی جب یہ تقریر کررہے تھے تو مجمع ان کے حق میں اور باغیوں کے خلاف نعرے بازی کر رہا تھا۔
کرنل قذافی نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ لیبیا میں کوئی مظاہرے ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف بن غازی میں ایک مظاہرہ ہوا تھا۔ انہوں نے القاعدہ کو ملک میں حالیہ شورش اور بدامنی کا تمام تر ذمے دار قراردیتے ہوئے کہا کہ” القاعدہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے مظاہرے نہیں کرتی”۔
آپ کی رائے