اقوام متحدہ نے لیبیا کی ہیومن رائٹس کونسل سے رکنیت کو بھی متفقہ طور پر معطل کر دیا ہے۔ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ لیبیا کی ہیومن رائٹس کونسل سےمتفقہ معطلی میں پیغام ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ لیبیا کے عوام کی مدد کے لیے تمام پہلوؤں پر غور کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ لیبیا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہروں میں ابتک ایک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
البتہ اقوام متحدہ کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد میں لیبیا میں نو فلائی زون قائم کرنے کی کسی تجویز کا ذکر نہیں ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر بھی نو فلائی زون قائم کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے لیبیا میں بدامنی پھیلنے کے بعد پچھہتر ہزار افراد وہاں سے فرار ہو کر تیونس پہنچ چکے ہیں جبکہ چالیس ہزار سرحد پر جمع ہیں۔
ادھر لیبیا کے رہنما کرنل معمر قدافی نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کی تمام اپیلوں کو رد کر دیا ہے۔ کرنل قدافی نے کہا ہے کہ لیبیا میں صورتحال ایسی نہیں ہے جییسی پیش کی جا رہی ہے۔ کرنل قدافی نے مظاہرین کو القاعدہ کا ممبر قرار دیا ہے۔
کرنل قدافی کی حامی افواج مغربی لیبیا میں باغیوں کے کنٹرول میں جانے والے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیبیا کے باغیوں کا ملک کے مشرقی شہروں پر کنٹرول ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں نے عالمی تنظیم برائے ہجرت کے ہمراہ لیبیا اور تیونس کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کی ہنگامی بینادوں پر وہاں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کی اپیل کی ہے۔
سرحد پر پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کا تعلق مصر، تیونس، ترکی، انڈیا، ویتنام، چین اور تھائی لینڈ سے ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیں کا کہنا ہے کہ لیبیا اور تیونس کے درمیان سرحد پر، لیبیا میں بدامنی کی وجہ سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ صورتحال بحرانی کیفیت میں تبدیل ہورہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے کی ترجمان فِراس کیال نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی آبادی اتنی زیادہ تعداد میں ہجرت کرنے والے افراد کا خیال رکھنے کی گنجائش نہیں رکھتی۔
’یہ حقیقی انسانی بحران ہے۔ اِن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف بارہ گھنٹے میں چودہ ہزار افراد نے سرحد پار کی ہے۔ ابھی ہزاروں دوسری جانب ہیں، اور یہ سب سرحد پار کرنا چاہتے ہیں۔‘
فِراس کیال نے کہا کہ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔ ان کے بقول یہ انسانی بحران ہے اور دنیا کے ملکوں کی حکومتوں کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کرنا ہوگی۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ انسانی امداد کے لیے دو ٹیمیں تیونس اور لیبیا کی سرحد پر بھیجی جا رہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان سے اپنے خطاب میں امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ لیبیا میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے یوایس ایڈ پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے اور انسانی امداد کے لیے دو ماہر ٹیمیں بھی بھیجی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امدادی ٹیمیں ان ان افراد کی مدد کریں گی جو گڑبڑ والے علاقوں سے نکلنے کے بعد پناہ کی تلاش میں ہیں اور جو تیونس یا پھر مصر کا رخ کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی فوج انسانی مشن پر جانے والی ٹیموں کی مدد کے لیے تیار ہے اور ایسا کوئی بھی پہلو نہیں ہے جس پر امریکہ غور نہیں کررہا ہے کیونکہ لیبیا کی حکومت نے اپنے ہی لوگوں پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں۔
افریقی براعظم کے ممالک میں سے لائبیریا کی صدر ایلن جانسن سرلیف کا کہنا ہے لیبیا میں پرتشدد کارروائیوں کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے لیبیا کی عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے عالمی سے بھی اپیل کی وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام کی رائے تسلیم کی جائے اور تشدد کو روکا جائے۔
لائبیریا کی صدر پہلی افریقی رہنماء ہیں جنہوں نے لیبیا کی صورتحال پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
البتہ اقوام متحدہ کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد میں لیبیا میں نو فلائی زون قائم کرنے کی کسی تجویز کا ذکر نہیں ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر بھی نو فلائی زون قائم کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے لیبیا میں بدامنی پھیلنے کے بعد پچھہتر ہزار افراد وہاں سے فرار ہو کر تیونس پہنچ چکے ہیں جبکہ چالیس ہزار سرحد پر جمع ہیں۔
ادھر لیبیا کے رہنما کرنل معمر قدافی نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کی تمام اپیلوں کو رد کر دیا ہے۔ کرنل قدافی نے کہا ہے کہ لیبیا میں صورتحال ایسی نہیں ہے جییسی پیش کی جا رہی ہے۔ کرنل قدافی نے مظاہرین کو القاعدہ کا ممبر قرار دیا ہے۔
کرنل قدافی کی حامی افواج مغربی لیبیا میں باغیوں کے کنٹرول میں جانے والے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیبیا کے باغیوں کا ملک کے مشرقی شہروں پر کنٹرول ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں نے عالمی تنظیم برائے ہجرت کے ہمراہ لیبیا اور تیونس کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کی ہنگامی بینادوں پر وہاں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کی اپیل کی ہے۔
سرحد پر پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کا تعلق مصر، تیونس، ترکی، انڈیا، ویتنام، چین اور تھائی لینڈ سے ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیں کا کہنا ہے کہ لیبیا اور تیونس کے درمیان سرحد پر، لیبیا میں بدامنی کی وجہ سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ صورتحال بحرانی کیفیت میں تبدیل ہورہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے کی ترجمان فِراس کیال نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی آبادی اتنی زیادہ تعداد میں ہجرت کرنے والے افراد کا خیال رکھنے کی گنجائش نہیں رکھتی۔
’یہ حقیقی انسانی بحران ہے۔ اِن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف بارہ گھنٹے میں چودہ ہزار افراد نے سرحد پار کی ہے۔ ابھی ہزاروں دوسری جانب ہیں، اور یہ سب سرحد پار کرنا چاہتے ہیں۔‘
فِراس کیال نے کہا کہ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔ ان کے بقول یہ انسانی بحران ہے اور دنیا کے ملکوں کی حکومتوں کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کرنا ہوگی۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ انسانی امداد کے لیے دو ٹیمیں تیونس اور لیبیا کی سرحد پر بھیجی جا رہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان سے اپنے خطاب میں امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ لیبیا میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کے لیے یوایس ایڈ پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے اور انسانی امداد کے لیے دو ماہر ٹیمیں بھی بھیجی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امدادی ٹیمیں ان ان افراد کی مدد کریں گی جو گڑبڑ والے علاقوں سے نکلنے کے بعد پناہ کی تلاش میں ہیں اور جو تیونس یا پھر مصر کا رخ کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی فوج انسانی مشن پر جانے والی ٹیموں کی مدد کے لیے تیار ہے اور ایسا کوئی بھی پہلو نہیں ہے جس پر امریکہ غور نہیں کررہا ہے کیونکہ لیبیا کی حکومت نے اپنے ہی لوگوں پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں۔
افریقی براعظم کے ممالک میں سے لائبیریا کی صدر ایلن جانسن سرلیف کا کہنا ہے لیبیا میں پرتشدد کارروائیوں کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے لیبیا کی عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے عالمی سے بھی اپیل کی وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوام کی رائے تسلیم کی جائے اور تشدد کو روکا جائے۔
لائبیریا کی صدر پہلی افریقی رہنماء ہیں جنہوں نے لیبیا کی صورتحال پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
آپ کی رائے