دبئی (العربیہ) لیبیا میں صدر کرنل قذافی کی عوامی دشمن پالیسی کے باعث ان کے ساتھی ایک ایک کر کے ان سے الگ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تازہ پیش رفت کے مطابق لیبیا کے پراسیکیورٹر جنرل عبدالرحیم العبار نے عہدے سےاستعفیٰ دیتے ہوئے اپوزیشن میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ العبار کرنل قذافی کے چچازاد اور مصر، لیبیا تعلقات عامہ کے نگران اعلیٰ احمد قذاف الدم کے بعد استعفیٰ پیش کرنے والی دوسری اہم شخصیت ہیں۔ قذاف الدم نے ایک روز قبل اپنے ملک میں صدر کرنل قذافی کے عوام پر طاقت کے استعمال پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا اور مصر سے پناہ کی درخواست کی تھی۔
العربیہ ٹی وی کے مطابق جمعہ کو لیبیائی ٹی وی پر نشر ایک بیان میں اٹارنی جنرل نے اپنا استعفیٰ ان الفاظ میں پڑھ کر سنایا “میں نے جب پراسیکیورٹر جنرل کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی تو اس وقت میں میں نے حلفا یہ اقرار کیا تھا کہ جب تک یہ عہدہ میرے پاس ہے میں اس کا قطعا ناجائز استعمال نہیں کروں گا، میں اپنی قوم،وطن اور حق و انصاف کی طرف فداری کروں گا۔ میں نے اپنے حلف کا پاس کیا۔ آج میری قوم اور خدا میری اصول پسندی کے گواہ ہیں۔ آج جو کچھ لیبیا کی سڑکوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسا خون خرابہ لیبیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔حکومت اور صدر کی جانب سےعوامی مطالبات کو بات چیت اور جمہوری طریقے سے حل کے بجائے طاقت اور تشدد کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ جو بھی ہورہا ہے حق و انصا ف کے خلاف ہے ۔ ایسے میں مَیں مزید اس عہدے پر رہ کر خود کو ظالم کاطرف دار نہیں بنانا چاہتا اور پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپوزیشن میں شامل ہونے کا اعلان کرتا ہوں”۔
ادھر ایک دوسری پیش رفت میں لیبیا کے مشرقی شہر “اجدابیا” میں فوج اور پولیس کے دستے مظاہرین کو کچلنے کے کرنل قذافی کے احکامات مسترد کرتے ہوئے انقلابی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ اجدابیا سے ملنے والی اطلاعات کی مطابق شہر میں فوج اور پولیس کے قائم کردہ عارضی چوکیاں ختم کر دی ہیں اور فو ج اور پولیس کے تمام اہلکار مظاہرین میں شامل ہو گئے ہیں۔
اجدابیا کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ان کے ساتھ تمام پولیس اہلکاروں نے فیصلہ کیا کہ وہ سترہ فرروی کے انقلاب گروپ کا حصہ بن کر نہ صرف ان کا تحفظ کریں گے بلکہ صدر کرنل قذافی کے احتجاج میں حصہ لیں گے۔
ادھر العربیہ کے نامہ نگار کے مطابق ساحلی شہر بن غازی میں مظاہرین نے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور آج ہفتے کو وہ شہر میں اپنی کامیابی کے جشن کی تقریبات کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔مظاہرین نے شہر کے تمام انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور بن غازی میں کسی قسم کے تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ شہر میں نظام زندگی معمول پر لوٹ آیا ہے۔
اسی اثناء میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام خوراک کے عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ لیبیا میں عوامی مظاہروں اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ملک میں غذا کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کی ترجمان امیلا کازیلا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیبیا میں کئی روز سے جاری مظاہروں کے بعد خوراک کی شدید قلت ہے اورخدشہ ہے کہ کسی بھی وقت لیبیا میں خوراک کا قحط پیدا ہو جائے۔
کازیلا کا کہناتھا کہ لیبیا میں بدامنی اور تشدد کے باعث خور ا ک کی بیرون ملک سے آمد منقطع ہے اور تشدد کا سلسلہ چند روز مزید جاری رہا تو لیبیا ئی عوام کو غذا کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک نے یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں کیا جب اس سے چندے قبل انسانی حقوق کی بعض دیگر تنظیمیں یہ خدشہ ظاہر کرچکی ہیں کہ لیبیا میں جاری پر تشدد واوقعات کے باعث شہریوں کو ملک چھوڑنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
العربیہ ٹی وی کے مطابق جمعہ کو لیبیائی ٹی وی پر نشر ایک بیان میں اٹارنی جنرل نے اپنا استعفیٰ ان الفاظ میں پڑھ کر سنایا “میں نے جب پراسیکیورٹر جنرل کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی تو اس وقت میں میں نے حلفا یہ اقرار کیا تھا کہ جب تک یہ عہدہ میرے پاس ہے میں اس کا قطعا ناجائز استعمال نہیں کروں گا، میں اپنی قوم،وطن اور حق و انصاف کی طرف فداری کروں گا۔ میں نے اپنے حلف کا پاس کیا۔ آج میری قوم اور خدا میری اصول پسندی کے گواہ ہیں۔ آج جو کچھ لیبیا کی سڑکوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسا خون خرابہ لیبیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔حکومت اور صدر کی جانب سےعوامی مطالبات کو بات چیت اور جمہوری طریقے سے حل کے بجائے طاقت اور تشدد کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ جو بھی ہورہا ہے حق و انصا ف کے خلاف ہے ۔ ایسے میں مَیں مزید اس عہدے پر رہ کر خود کو ظالم کاطرف دار نہیں بنانا چاہتا اور پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپوزیشن میں شامل ہونے کا اعلان کرتا ہوں”۔
ادھر ایک دوسری پیش رفت میں لیبیا کے مشرقی شہر “اجدابیا” میں فوج اور پولیس کے دستے مظاہرین کو کچلنے کے کرنل قذافی کے احکامات مسترد کرتے ہوئے انقلابی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ اجدابیا سے ملنے والی اطلاعات کی مطابق شہر میں فوج اور پولیس کے قائم کردہ عارضی چوکیاں ختم کر دی ہیں اور فو ج اور پولیس کے تمام اہلکار مظاہرین میں شامل ہو گئے ہیں۔
اجدابیا کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ان کے ساتھ تمام پولیس اہلکاروں نے فیصلہ کیا کہ وہ سترہ فرروی کے انقلاب گروپ کا حصہ بن کر نہ صرف ان کا تحفظ کریں گے بلکہ صدر کرنل قذافی کے احتجاج میں حصہ لیں گے۔
ادھر العربیہ کے نامہ نگار کے مطابق ساحلی شہر بن غازی میں مظاہرین نے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور آج ہفتے کو وہ شہر میں اپنی کامیابی کے جشن کی تقریبات کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔مظاہرین نے شہر کے تمام انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور بن غازی میں کسی قسم کے تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ شہر میں نظام زندگی معمول پر لوٹ آیا ہے۔
اسی اثناء میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام خوراک کے عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ لیبیا میں عوامی مظاہروں اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ملک میں غذا کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کی ترجمان امیلا کازیلا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیبیا میں کئی روز سے جاری مظاہروں کے بعد خوراک کی شدید قلت ہے اورخدشہ ہے کہ کسی بھی وقت لیبیا میں خوراک کا قحط پیدا ہو جائے۔
کازیلا کا کہناتھا کہ لیبیا میں بدامنی اور تشدد کے باعث خور ا ک کی بیرون ملک سے آمد منقطع ہے اور تشدد کا سلسلہ چند روز مزید جاری رہا تو لیبیا ئی عوام کو غذا کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک نے یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں کیا جب اس سے چندے قبل انسانی حقوق کی بعض دیگر تنظیمیں یہ خدشہ ظاہر کرچکی ہیں کہ لیبیا میں جاری پر تشدد واوقعات کے باعث شہریوں کو ملک چھوڑنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
آپ کی رائے