طرابلس/دوحہ (ایجنسیاں/ٹی وی رپورٹ) لیبیا میں عوامی احتجاج کا سلسلہ ساتویں روز بھی جاری ہے، مظاہرین معمر قذافی کی جانب سے اقتدار نہ چھوڑنے کے اعلان کے بعد مزید مشتعل ہوگئے، وزیرداخلہ سمیت کئی وزراء اور بیرون ممالک میں تعینات سفیر بھی مستعفی ہوگئے ہیں ، لیبیا کے متعدد علاقوں کا کنٹرول فوج کے حوالے کردیا گیا ہے اور باغی فوجیوں نے دعوی کیا ہے کہ ملک کا مشرقی خطہ معمر قذافی کے کنٹرول سے آزاد کرالیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب یورپی یونین نے لیبیا پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معمر قذافی کی جانب سے عوام کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی دھمکی قبول نہیں اور یورپی یونین کے 10ہزار سے زائد شہریوں کو لیبیا سے نکالنے کیلئے تمام انتظامات مکمل ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل نے لیبیا کے مسئلے پر بحث کیلئے جمعہ کو خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ لیبیا کے سیاسی بحران کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق لیبیا کے مشرقی علاقوں میں تشدد زور پکڑ گیا ہے‘ تبروک کے قریب واقع شہر بیادا میں معمر قذافی کی حامی ملیشیاء کے ارکان کو پکڑ کر مار دینے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق قذافی مخالف تحریک نے تبروک‘ بن غازی اور مصر کے ساتھ لیبیا کے دوسرے سرحدی شہروں میں زور پکڑ لیا ہے اور وہاں فوجیوں کی ایک تعداد نے بھی بغاوت کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق لیبیا کے مشرق میں مصر کی سرحد اور ساحل ہونے کی وجہ سے لیبیا سے انخلاء چاہنے والے غیرملکیوں کی بڑی تعداد ادھر کا رخ کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق غیرملکی مہاجرین کا پہلا گروپ لیبیا سے سرحد پار کرکے تونیسیا میں داخل ہوگیا ہے ان افراد میں لیبیا کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ گروپ کرائے پر لی گئی گاڑیوں اور 2بسوں کی مدد سے وہاں پہنچا ہے۔ ان میں 4700تونیسین‘ 120ترک اور ایک درجن کے قریب لبنانی باشندے ہیں جبکہ چند کا تعلق مغربی افریقی ممالک سے ہے۔
لیبیا کے ایئرفورس کے ایک پائلٹ نے اپوزیشن کے اہم مرکز پر بم گرانے سے انکار کرتے ہوئے ساتھی پائلٹ کے ہمراہ طیارے سے انخلاء کردیا جس کے باعث جنگجو طیارہ مظاہرین میں جا گرا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پائلٹ اتی البدالی اور کوپائلٹ علی عمر قذافی نے بم گرانے کے حکم کو نہ مانتے ہوئے طیارے سے پیراشوٹس کے ذریعے انخلاء کیا۔ جبکہ لیبیا کے مستعفی ہونیوالے وزیرانصاف نے کہا ہے کہ معمرقذافی 1988میں لوکربی میں بمباری کرنے کیلئے ازخود حکم دیا تھا جس کے میرے پاس ثبوت موجود ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتہ سے معمر قذافی کیخلاف لیبیا میں ہونیوالے احتجاج میں 640 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ فیڈریشن کی رہنما سوہیار نے کہا کہ لیبا کی حکومت کی جانب سے بتائی گئی ہلاکتوں کی تعدادسے دہ گناہ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنغازی میں احتجاج کے دوران عوام پر فائرنگ سے انکار کرنیوالے 130 اہلکاروں کیخلاف کارروائی بھی بنغازی میں جاری ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ معلومات لیبا کے ہیومن رائٹس گروپس اور تریپولی میں آرمی ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ لیبیا کے سیاسی بحران کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے عالمی برادری سے بھی رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب مراکش کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ لیبین عوام کے مطالبے کو جائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین پر ہونے والے بیہمانہ تشدد کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے خطے کو لاحق سیکورٹی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک میں عوام پر ہونے والے تشددناقابل قبول ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہزاروں مراکش عوام نے مظاہرہ کیا تھا ۔ مظاہرین نے شاہ محمد سے آئین کی بحالی اور اپنے اختیارات نومنتخب حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دریں اثناء غیرملکیوں نے لیبیا کی روز بہ روز بگڑتی صورتحال کے پیش نظر انخلاء شروع کردیا ہے اور کئی افراد لیبیا سے تیونس کیلئے نکل چکے ہیں جبکہ برطانیہ نے لیبیا سے اپنے شہریوں کو نکالنے کیلئے چارٹرڈ طیارہ بھیج دیا ہے۔ تریپولی ایئرپورٹ پر پریشان حال مسافر لیبیا سے نکلنے اور جہاز پر سوار ہونے کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق قذافی مخالف تحریک نے تبروک‘ بن غازی اور مصر کے ساتھ لیبیا کے دوسرے سرحدی شہروں میں زور پکڑ لیا ہے اور وہاں فوجیوں کی ایک تعداد نے بھی بغاوت کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق لیبیا کے مشرق میں مصر کی سرحد اور ساحل ہونے کی وجہ سے لیبیا سے انخلاء چاہنے والے غیرملکیوں کی بڑی تعداد ادھر کا رخ کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق غیرملکی مہاجرین کا پہلا گروپ لیبیا سے سرحد پار کرکے تونیسیا میں داخل ہوگیا ہے ان افراد میں لیبیا کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ گروپ کرائے پر لی گئی گاڑیوں اور 2بسوں کی مدد سے وہاں پہنچا ہے۔ ان میں 4700تونیسین‘ 120ترک اور ایک درجن کے قریب لبنانی باشندے ہیں جبکہ چند کا تعلق مغربی افریقی ممالک سے ہے۔
لیبیا کے ایئرفورس کے ایک پائلٹ نے اپوزیشن کے اہم مرکز پر بم گرانے سے انکار کرتے ہوئے ساتھی پائلٹ کے ہمراہ طیارے سے انخلاء کردیا جس کے باعث جنگجو طیارہ مظاہرین میں جا گرا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پائلٹ اتی البدالی اور کوپائلٹ علی عمر قذافی نے بم گرانے کے حکم کو نہ مانتے ہوئے طیارے سے پیراشوٹس کے ذریعے انخلاء کیا۔ جبکہ لیبیا کے مستعفی ہونیوالے وزیرانصاف نے کہا ہے کہ معمرقذافی 1988میں لوکربی میں بمباری کرنے کیلئے ازخود حکم دیا تھا جس کے میرے پاس ثبوت موجود ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتہ سے معمر قذافی کیخلاف لیبیا میں ہونیوالے احتجاج میں 640 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ فیڈریشن کی رہنما سوہیار نے کہا کہ لیبا کی حکومت کی جانب سے بتائی گئی ہلاکتوں کی تعدادسے دہ گناہ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنغازی میں احتجاج کے دوران عوام پر فائرنگ سے انکار کرنیوالے 130 اہلکاروں کیخلاف کارروائی بھی بنغازی میں جاری ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ معلومات لیبا کے ہیومن رائٹس گروپس اور تریپولی میں آرمی ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ لیبیا کے سیاسی بحران کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے عالمی برادری سے بھی رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب مراکش کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ لیبین عوام کے مطالبے کو جائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین پر ہونے والے بیہمانہ تشدد کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے خطے کو لاحق سیکورٹی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک میں عوام پر ہونے والے تشددناقابل قبول ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہزاروں مراکش عوام نے مظاہرہ کیا تھا ۔ مظاہرین نے شاہ محمد سے آئین کی بحالی اور اپنے اختیارات نومنتخب حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دریں اثناء غیرملکیوں نے لیبیا کی روز بہ روز بگڑتی صورتحال کے پیش نظر انخلاء شروع کردیا ہے اور کئی افراد لیبیا سے تیونس کیلئے نکل چکے ہیں جبکہ برطانیہ نے لیبیا سے اپنے شہریوں کو نکالنے کیلئے چارٹرڈ طیارہ بھیج دیا ہے۔ تریپولی ایئرپورٹ پر پریشان حال مسافر لیبیا سے نکلنے اور جہاز پر سوار ہونے کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں ۔
آپ کی رائے