لاپتہ افراد کے کوائف اکٹھے کرنے کا فیصلہ

لاپتہ افراد کے کوائف اکٹھے کرنے کا فیصلہ
lapata_2اسلام آباد(بى بى سى) پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایوان بالا کی کمیٹی نے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خاص طور پر بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے کوائف اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس مقصد کے لیے پیر کو سینٹ کی کمیٹی نے ایک سب کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

اسلام آباد میں سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سنیٹر افراسیاب خٹک کی سربراہی میں ہوا۔
اجلاس کے بعد سینیٹر افرسیاب خٹک نے بی بی سی کے نامہ نگار ذوالفقار علی سے بات کرتے ہویے کہا کہ اس اجلاس میں ’ملک میں انسانی حقوق کے مسائل اور لاپتہ افراد کے بارے میں سے بات ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں انسانی حقوق کی تفصیلات اور لاپتہ افراد کے کوائف اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل سب کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کی چیئرپرسن بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خاتون سینیٹر ثریا امیرالدین کو مقرر کیا گیا کیوں کہ ان کے بقول بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی کے واقعات ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ ہیں۔
سینیڑ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’یہ کمیٹی گمشدہ افراد کے بارے میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات اور عدالتوں میں زیر سماعت لاپتہ افراد کے مقدمات کی تفصیلات بھی اکٹھی کرے گی اور یہ تجویز بھی دے گی کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔‘
انسانی حقوق سے متعلق سینٹ کی سب کمیٹی کی چیئرپرسن ثریا امیر الدین نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں صورت حال بہت خراب ہے اور بہت سارے لوگ لاپتہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب ہم واپس(کوئٹہ ) جاتے ہیں تو لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ آپ سینٹ میں بیٹھ کر کیا کر رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا اپنوں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے باہر اب خواتین بھی مہنیوں سے احتجاج کرتی نظر آ رہی ہیں۔
ثریا امیرالدین نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس یہ تفصیلات نہیں ہیں کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ معلومات اکٹھی کرنے کی خاطر چھبیس فروری کو کوئٹہ جا رہی ہیں جس کے بعد ہی وہ بتا سکیں گی کہ کتنے لوگ غائب ہیں اور کب سے غائب ہیں۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ لوگوں کو غائب کرنے میں کون لوگ ملوث ہیں البتہ ان کا کہنا ہے کہ ’صورت حال اتنی خراب ہے کہ لوگوں کو سڑکوں پر چلتے ہوئے غائب کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات اغوا کار تاوان کا مطالبہ بھی کرتے ہیں لیکن غریب لوگ تاوان کی رقم ادا نہیں کر پاتے ہیں اور اگلے روز انھیں اپنے عزیز کی لاش بوری میں ملتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہر دوسرے تیسرے دن بوری میں بند لاش ملتی ہے۔‘
بلوچ قوم پرست تنظیمیں یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں مبینہ طور پر ہزاروں لوگ فوجی آپریشن کے دوران لاپتہ ہوچکے ہیں اور ان کے بقول یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جولائی سے ان لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوگئی تھی اور اس دوران اب تک اسی سے زیادہ لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں صوبے کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں۔
حکام ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں کہ لاپتہ افراد سیکورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں۔
البتہ کوئٹہ میں صوبائی وزارت داخلہ کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد دو سو سے کم ہے جن میں سے ان کا دعویٰ ہے کہ لگ بھگ چالیس افراد حکومتی کوششوں کے باعث اب تک منظرعام پر آ چکے ہیں۔
پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ بلوچ مزاحمت کاروں پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بلوچستان میں پنچابی آباد کاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں