افغانستان: قندوزکے سرکاری دفترپرطالبان کا خودکش حملہ،31 افراد ہلاک

افغانستان: قندوزکے سرکاری دفترپرطالبان کا خودکش حملہ،31 افراد ہلاک
afghan-bomb-blast-reutقندوز(اے ایف پی،رائٹرز) افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب میں پیر کو فوجی بھرتی مرکزپر طالبان کے انتہائی خوفناک خود کش حملے میں 31افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جن میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔

اسپتال ذرائع نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کے اعضاء اسپتال لائے گئے ہیں۔ دھماکے میں 100سے زائد افر اد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ چند ہفتے قبل جولائی میں نیٹو فورسز کی افغانستان سے محدود واپسی کے اعلان کے بعد سے مزاحمت کارگزشتہ تین ہفتوں سے سرکاری دفاتر کو نشانہ بنارہے ہیں۔
ڈسٹرکٹ گورنر محمد ایوب نے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے دفتر میں دھماکہ خیز کے مواد سے خود کو اڑالیا۔طالبان ترجمان نے ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے” ہیرو“ارکان نے حملے کا کام انجام دیا ہے اور ان کا ہدف فوج کے بھرتی کا مرکزتھا جس میں سیکورٹی فورسز کے 30ارکان ہلاک ہوئے۔
طالبان کے جاری کردہ بیان میں آتاہے: “استشہادی مجاہدشہید محمدداؤد تقبلہ اللہ باشندہ صوبہ لوگرنےپیرکی روزکٹھ پتلی ادارےکی فوجی بھرتی مرکزمیں ایسےوقت میں فدائی حملہ کیا جب کثیرتعدادمیں امریکی حمایت یافتہ نام نہادقومی لشکرکےجنگجواپنی اسنادکی چھان بین اوراسےقانونی بنانےکی غرض دفتر میں جمع ہوچکےتھے،تواس دوران فدائی مجاہددفترمیں داخل ہوااورملیشیاجنگجوکےدرمیان بارود بھرے جیکٹ سےحملہ کیا،جس کےنتیجے میں تیس30جنگجوہلاک جبکہ بیالیس 42 زخمی ہوئے۔”
دریں اثناء افغان حکام نے الزام لگایا ہے کہ نیٹو فورسز کے ایک فضائی حملے میں میاں بیوی سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق صوبہ ننگرہار کے پاکستانی سرحد سے ملحقہ علاقے میں نیٹو فورسز نے ایک کچے مکان پر بمباری کی۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ کچھ عسکریت پسند سڑک کنارے بم نصب کرنے میں مصروف تھے، اطلاع ملنے پر نیٹو طیاروں نے بمباری کی تاہم نشانہ خطا ہونے کے باعث ایک مکان تباہ ہو گیا جس میں موجود میاں بیوی اپنے چار بچوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔
ایک روز قبل افغان صدر حامد کرزئی نے مشرقی صوبہ کنڑ میں نیٹو کی فضائی بمباری میں 50افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی ۔کابل میں نیٹو کے ترجمان میجر مائیکل جونسن نے بتایا کہ بمباری سے شہری ہلاکتوں کے واقعات کی تحقیقات ہو رہی ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں