‘تربت جام’ کی اہل سنت برادری

‘تربت جام’ کی اہل سنت برادری
torbat-jam’’تربت جام‘‘ کاشمار قدیم خراسان کے سب سے اہم اور بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر ایران کے سنی اکثریت علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ صدیوں میں علماء و فقہاء، ادیبوں، شاعروں اور بزرگ عارفوں کی کئی نسلوں نے عالم اسلام کو اپنی گرانقدر خدمات پیش کیں۔ تربت جام کی تاریخ کو اگر مطالعہ کیا جائے تو قاری کو کبھی مسرت محسوس ہوگی کہیں ایسا غم کہ شاید آنسو بہہ جائے۔

دیگر سنی علاقوں کی طرح ’’تربت جام‘‘ بھی ایک سرحدی شہر ہے اور افغانستان کی سرحدوں کے قریب واقع ہے۔ اس کے شمال میں ’’سرخس‘‘ اور مشہد (قدیم طوس) اس کے مغرب میں آتا ہے جبکہ جنوب میں ’’تایباد‘‘ واقع ہے جو صوبہ خراسان کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تاریخ بلدان کی کتب میں سب سے پہلے جو نام اس تاریخی شہر کیلیے موجود ہے وہ ’’زام ‘‘ ہے۔ تاریخی حوالوں میں ’’بوزجان‘‘ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے جو فارسی کے لفظ ’’بوژگان‘‘ کا معرب ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے بوژگان کا مطالب ’’ایسی سرزمین جہاں اولیاء و عقل مند لوگ بستے ہیں‘‘ ، ہے۔ طغرل کے وزراء ابوالوفاء بوزجانی، ابوذر بوزجانی اور ابوالقاسم کی خدمات اس بات پر دلیل ہیں۔ بعض دیگر لوگوں کا خیال ہے یہ لفظ دو جزو پر مشتمل ہے اور مقامی لہجے میں اس کا مطلب ہے ’’ایسا علاقہ جہاں نہریں بہتی ہیں‘‘ اور اس خطے میں ’’جام رود‘‘ نامی نہر کافی مشہور ہے۔
’’معجم البلدان‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے ’’بوزجان‘‘ نیشابور کے قریب ہے جسے ’’جام‘‘ بھی کہتے ہیں چونکہ یہ سبز وآباد علاقہ ہے جو شیشے والے جام سے مشابہ ہے، اس لیے اسے جام کہاجاتاہے۔ یہ علاقہ ۱۸۰ بستیوں پر مشتمل ہے۔
تاریخی کتب میں اس شہر کو ’’ژام‘‘ سے بھی یاد کہا گیا ہے جو اسلامی فتوحات اور عرب حکمرانوں کے آنے کے بعد ’’زام‘‘ اور بعض کے مطابق ’’جام‘‘ میں تبدیل ہوا۔ بہر حال اس تاریخی شہر کے ناموں کے بارے میں اصحاب بلدان نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تربت جام کافی پرانا شہر ہے، میلاد مسیح (ع) سے ہزاروں برس پہلے بھی یہاں مختلف قومیں آباد رہی ہیں۔ ہر ملت نے ایک نام رکھا، اس طرح تربت جام کے متعدد نام تاریخی حوالوں میں موجود ہیں۔

تربت جام کی بعض معروف شخصیات:
شیخ الاسلام احمد جام:
یکتائے زمانہ شیخ الاسلام احمد جام زہد وعرفان اور تقوا مین اپنے عہد اور بعد کے ممتازترین نابغہ روزگار تھے۔ آپ (رح) عالم، شاعر اور عارف تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۰۴۸ء میں تربت جام کی بستی ’’نامق‘‘ میں ہوئی۔ آپ کی نشوونما کا ثمر میں ہوئی، اس کے بعد آپ تربت جام منتقل ہوئے۔ آپ کے دست مبارک پرخراسان میں سینکڑوں افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب جریر بن عبداللہ یمانی سے لگتا ہے۔ شیخ الاسلام احمد جام نے متعدد کتابیں لکھیں خاص طور تزکیہ و اخلاق کے بارے میں، جیسا کہ:
سراج السائرین (تین جلدوں میں)،
انیس التائبین،
الرسالۃ السمرقندیہ،
مفتاح الجناۃ،
روضۃ المذنبین،
کنوز الحکمۃ،
فتوح الروح،
الاعتقادات،
التذکیرات،
الزھدیات،
دیوان اشعار (فارسی میں)۔
شیخ السلام احمد جام کا انتقال ۱۱۴۱ء میں ہوا۔ آپ نے ۹۰ سال سے زائد پر برکت عمر کو اسلام ومسلمانوں کی خدمت میں صرف کردی۔

ابوالوفاء البوزجانی:
آپ ماہر فلکیات وریاضی تھے۔ ابوالوفاء کی پیدائش بوزجان میں ہوئی جو ہرات ونیشابور کے درمیان واقع ہے۔ آپ سنہ ۳۴۸ ھ۔ق (۹۵۹ء) میں عراق متقل ہوئے جہاں بغداد میں آپ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔
بیہقی وصفدی نے آپ کو ریاضیات وفلکیات کے ماہر ترین علماء میں شمار کیا ہے۔
آپ کی بعض کتابیں:
تفسیر کتاب دیوفنطسی (الجبرا میں)،
تفسیر کتاب الخوارزمی (الجبرا و مقابلے میں)،
الکامل (ستاروں کی حرکات کے بارے میں)،
الہندسۃ،
الہیءۃ میں رسالہ،
کتاب فی ما یحتاج الیہ الکتاب والعمال،
زیج الواضح،
رسالۃ فیما یحتاج الیہ الصانع من اعمال الہندسۃ۔

نورالدین عبدالرحمن جامی:
آپ تاریخِ ایران کے معرف ترین شاعروں اور ادیبوں میں ہیں جو نویں صدی ہجری میں رہتے تھے۔ عبدالرحمن جامی تیموری حکام کے آخری دور کو پاچکے تھے۔ آپ کی حیات میں شاہرخ، ابوالقاسم بابری اور ابوسعید کورگان حکمرانی کرتے تھے جن کاتعلق سلسلہ تیموریہ سے تھا۔ عبدالرحمن جامی نے ۹۱ برس عمر پائی اور ۱۴۸۷ء میں انتقال کر گئے۔
آپ کی شہرت ان کے فارسی اشعار و آثار کی وجہ سے ہے، البتہ اس کے علاوہ آپ نے دیگر علوم میں بھی خدمات پیش کیں، مثلاً: الفوائد الضیائیۃ فی شرح الکفایۃ (کافیہ ابن حاجب کی شرح ’’نحو‘‘ میں) یہ اہل علم کیلیے ایک جانی پہچانی کتاب ہے جو ’’شرح جامی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
مذکورہ بالا شخصیات کے علاوہ ’’ابوذر بوزجانی‘‘ کا نام قابل ذکر ہے جو چوتھی صدی ہجری کے نامور عرفاء میں سے تھے۔ سلطان محمود غزنوی استفادہ کیلیے آپ کے پاس حاضری دیا کرتے تھے۔
ابوجعفر محمد زامی ’’سامانی‘‘ دور کے بڑے ادیبوں اور شاعروں میں سے تھے۔ آپ (رح) شروع میں نیشابور منتقل ہوئے، پھر بخارا کی جانب روانہ ہوئے۔ آپ کے اشعار فارسی و عربی میں ہیں۔
عبداللہ الھاتفی الخرجردی؛ جنہوں نے اپنے عہد شباب ونوجوانی کو آذربائیجان وعراق میں طلب علم کے لیے گزاردیا۔ اس کے بعد آپ اپنے آبائی علاقہ ’’خرجرد‘‘ واپس ہوئے اور زراعت وعبادت میں مصروف ہوگئے۔ عبداللہ خرجردی کی مؤلفات ان کی مادری زبان میں ہیں۔
یہ جام کا مختصر تعارف ہے جو اب ’’تربت جام‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ایران کے صوبے خراسان میں واقع ہے۔ یہ شہر اب بھی اہل سنت والجماعت کے مرکزی اور بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ کئی صدیوں کے بعد بھی تربت جام اپنی تہذیب واصالت پر قائم ہے اور لوگوں کی اکثریت مذہب اہل سنت والجماعت (حنفی) پر ہے۔ البتہ ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد بعض شیعہ آباد کاروں نے دیگر علاقوں سے تربت جام کا رخ کیا۔ پھر بھی عوام اپنی ثقافت سے دور نہیں ہیں اور اہل علم کا آنا جانا یہاں ہوتا ہے۔ ’’فخر المدارس‘‘، ’’صدیقیہ‘‘ اور مرکز دعوت وتبلیغ جیسے دینی اداروں کی سرگرمیاں جاری ہیں جو بدعات ومنکرات کی بیخ کنی اور علم وفضل کی اشاعت میں شب وروز مصروف ہیں۔
اللہ تعالی ان کے صدق واخلاص میں اضافہ فرمائے اور تمام مسلمانوں کو فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔

سنی آن لائن/اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں