اسلام آباد(بی بی سی) پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس ڈرون طیاروں کے حملے چوبیس روز سے نہیں ہو رہے۔
عوامی سطح پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، موسمی حالات، حفیہ معلومات کی کمی، عوامی رائے کا احترام یا پھر امریکی ڈرون حملوں کی خاموشی کا تعلق لاہور میں گرفتار امریکی سفارتخانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے ہے؟
عوامی سطح پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، موسمی حالات، حفیہ معلومات کی کمی، عوامی رائے کا احترام یا پھر امریکی ڈرون حملوں کی خاموشی کا تعلق لاہور میں گرفتار امریکی سفارتخانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے ہے؟
قبائلی علاقوں میں ڈرونز کا آخری حملہ شمالی وزیرستان ایجنسی میں تیئس جنوری کو ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد سے اب تک کوئی حملہ نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے ہیں۔ میرانشاہ اور میر علی سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آخری حملے کے بعد سے انھوں نے ڈرون طیارے فضا میں کم ہی دیکھے ہیں لیکن چند روز سے پھر یہ طیارے فضا میں منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق کچھ عرصہ سے ڈرون حملوں کی بندش کی وجہ سے لوگوں نے سکون کی سانس لی ہے۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے تو ہوتے رہے ہیں اور کچھ عرصے سے قبائلی علاقوں میں بھی جلسے جلوس منعقد کیے گئے ہیں جن میں امریکی ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان احتجاجی مظاہروں کے باوجود حملے نہیں رکے اور ان میں مزید شدت آتی گئی۔ اگر ہم چند ماہ کا تجزیہ کریں تو گزشتہ سال ستمبر میں سولہ دن حملے ہوئے اور ان میں چار روز سے زیادہ وقفہ نہیں کیا گیا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک دن میں چار اور پانچ حملے ہوئے ہیں۔
اکتوبر میں گیارہ دن حملے ہوئے اور سب سے بڑا واقفہ نو دن کا رہا ہے۔ نومبر میں بھی گیارہ روز حملے ہوئے اور بڑا وقفہ چار روز کا تھا جبکہ دسمبر میں آٹھ حملے ہوئے جن میں بڑا وقفہ دس دن کا تھا۔ اس سال جنوری میں پانچ دنوں میں نو حملے ہوئے اور آخری حملہ تئیس جنوری سن دو ہزار گیارہ کو ہوا تھا۔ گزشتہ سال مجموعی طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک سو اٹھارہ حملے ہوئے تھے۔
اب ذکر کرتے ہیں لاہور کے واقعہ کا جب امریکی سفارتخانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو ستائیس جنوری کو دو افراد کو فائرنگ سے ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد سے امریکہ پاکستان پر مسلسل یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنی حاصل ہے اس لیے انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا جائے۔
اس بارے میں کہ آیا ڈرون حملوں کی خاموشی اور ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کا کیا کوئی تعلق بنتا ہے پاکستان میں عسکری اور سیاسی مبصرین کی رائے مختلف ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس چونکہ پشاور میں تعینات رہے اور خفیہ معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کام کرتے ہوں گے اس لیے کچھ تعلق بنتا نظر آتا ہے تاہم انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں معلومات تفتیش کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا ڈرون حملوں کی خاموشی موسمی حالات کی وجہ سے تو نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ ان چوبیس دنوں میں اگر کبھی موسم خراب رہا ہے تو ایسے دن بھی تھے جب موسم طیاروں کی اڑان کے لیے موزوں تھا لیکن کہیں کوئی حملہ نہیں ہوا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے باچا خان ایجیوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ خادم حسین نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے اب عوامی رائے کو سمجھتے ہوئے ڈرون حملے کرنا بند کر دیا ہو کیونکہ کچھ عرصہ سے عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور خطے میں بد امنی کی ایک وجہ امریکی مداخلت ہو سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کے مطابق پاکستان کو ملنے والی امداد کا کوئی اسی فیصد حصہ امریکہ سے آتا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا امریکہ پاکستان کی عوامی رائے کا پاس رکھتے ہوئے ڈرونز حملے کرنا بند کردے گا کیونکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اب حالات مختلف ہیں اور امریکہ خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے مجموعی عوامی رائے کا احترام اس لیے بھی کرے گا کیونکہ اس خطے میں امریکہ اپنا اثر چاہتا ہے۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے تو ہوتے رہے ہیں اور کچھ عرصے سے قبائلی علاقوں میں بھی جلسے جلوس منعقد کیے گئے ہیں جن میں امریکی ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ان احتجاجی مظاہروں کے باوجود حملے نہیں رکے اور ان میں مزید شدت آتی گئی۔ اگر ہم چند ماہ کا تجزیہ کریں تو گزشتہ سال ستمبر میں سولہ دن حملے ہوئے اور ان میں چار روز سے زیادہ وقفہ نہیں کیا گیا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک دن میں چار اور پانچ حملے ہوئے ہیں۔
اکتوبر میں گیارہ دن حملے ہوئے اور سب سے بڑا واقفہ نو دن کا رہا ہے۔ نومبر میں بھی گیارہ روز حملے ہوئے اور بڑا وقفہ چار روز کا تھا جبکہ دسمبر میں آٹھ حملے ہوئے جن میں بڑا وقفہ دس دن کا تھا۔ اس سال جنوری میں پانچ دنوں میں نو حملے ہوئے اور آخری حملہ تئیس جنوری سن دو ہزار گیارہ کو ہوا تھا۔ گزشتہ سال مجموعی طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک سو اٹھارہ حملے ہوئے تھے۔
اب ذکر کرتے ہیں لاہور کے واقعہ کا جب امریکی سفارتخانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو ستائیس جنوری کو دو افراد کو فائرنگ سے ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد سے امریکہ پاکستان پر مسلسل یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنی حاصل ہے اس لیے انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا جائے۔
اس بارے میں کہ آیا ڈرون حملوں کی خاموشی اور ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کا کیا کوئی تعلق بنتا ہے پاکستان میں عسکری اور سیاسی مبصرین کی رائے مختلف ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد کا کہنا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس چونکہ پشاور میں تعینات رہے اور خفیہ معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کام کرتے ہوں گے اس لیے کچھ تعلق بنتا نظر آتا ہے تاہم انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں معلومات تفتیش کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا ڈرون حملوں کی خاموشی موسمی حالات کی وجہ سے تو نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ ان چوبیس دنوں میں اگر کبھی موسم خراب رہا ہے تو ایسے دن بھی تھے جب موسم طیاروں کی اڑان کے لیے موزوں تھا لیکن کہیں کوئی حملہ نہیں ہوا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے باچا خان ایجیوکیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ خادم حسین نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے اب عوامی رائے کو سمجھتے ہوئے ڈرون حملے کرنا بند کر دیا ہو کیونکہ کچھ عرصہ سے عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور خطے میں بد امنی کی ایک وجہ امریکی مداخلت ہو سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کے مطابق پاکستان کو ملنے والی امداد کا کوئی اسی فیصد حصہ امریکہ سے آتا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا امریکہ پاکستان کی عوامی رائے کا پاس رکھتے ہوئے ڈرونز حملے کرنا بند کردے گا کیونکہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اب حالات مختلف ہیں اور امریکہ خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے مجموعی عوامی رائے کا احترام اس لیے بھی کرے گا کیونکہ اس خطے میں امریکہ اپنا اثر چاہتا ہے۔
آپ کی رائے