نیل کے ساحل سے!!

نیل کے ساحل سے!!
egypt_8صرف ایک شب پہلے اُس نے بڑے طمطراق سے کہا تھا۔ ”استعفیٰ نہیں دوں گا۔ ستمبر 2011ء تک میعاد صدارت پوری کروں گا“۔ اورا بھی اُس کے اعلان کی گونج تحلیل نہیں ہوئی تھی کہ وہ چلا گیا۔ مصر کے سلسلہ فراعنہ کی ایک اور کڑی تماشاگاہ عبرت کی کارنس پہ جاسجی۔ تیس برس پر محیط اُس کا آہنی اقتدار صرف اٹھارہ دنوں میں موم کی طرح تحلیل ہوگیا۔

قاہرہ کے آزادی چوک میں دس لاکھ مصریوں کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ کوئی سیاسی جماعت اُن کی رہبری کررہی تھی نہ کوئی قد آور مصری سیاسی راہنما اُن کے جذبوں کو آنچ دے رہا تھا۔ وہ خود ہی راہنما تھے اور خود ہی راہرو۔ تیونس میں زین العابدین بن علی کا تختہ الٹ دیا گیا تو مصریوں نے جانا کہ وہ کیوں حسنی مبارک سے گلو خلاصی نہیں کرسکتے۔ وہ گھرون سے نکلے اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اُن کے عزم کی آنچ تیز ہوتی گئی۔ حسنی مبارک نے بہت پینترے بدلے۔ بہت کرتب دکھائے‘ بہت چالاکیاں دکھائیں۔ سفاک پولیس کا بے رحمانہ استعمال کیا‘ سینکڑوں افراد شہید ہوگئے۔ لاتعداد زخمی ہوئے‘ عوام پھر بھی ڈٹے رہے۔ تب آمروں کی روایت کے عین مطابق حسنی مبارک نے اپنے مراعات یافتہ طبقے کو جھونک دیا۔ خانہ جنگی کی آگ بھرکانے کی کوشش کی۔پرعزم مصریوں کے قدم پھر بھی نہ ڈگمگائے۔ فوج نے سڑی بسی آمریت کا ساتھ دینے کے بجائے عوام کا ساتھ دینے کی ٹھانی‘ حسنی مبارک اُسی دن فارغ ہوگیا تھا جس دن فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا لیکن اُسے واشنگٹن میں بیٹھے اپنے سرپرستوں پر بھروسہ تھا۔
تحریر چوک میں دس لاکھ افراد جمع تھے۔ نہتے‘غیرمسلح لیکن عزم بے کراں سے سرشار‘ شام چھ بجے نائب صدر عمر سلیمان نے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک مختصر اعلان کیا…”ملک کے موجودہ بحرانی حالات کے پیش نظر صدر حسنی مبارک نے منصب صدارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے“۔ اس کے ساتھ ہی قاہرہ ”الله اکبر“ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ترانے‘ نغمے‘ رقص‘ آتش بازی اور رات کے بطن سے پھوٹتی ایک نئی سحر کا جلال و جمال۔ تحریر چوک میں ایک نئی تاریخ تحریر ہورہی تھی۔ لوگ نعرہ زن تھے۔ ”مصر آزاد ہوگیا“ بڑے سائز کے ایک جہازی بینر پر لکھا تھا۔ ”بہت ہوچکی۔ یہ ہے وہ کچھ جو تم نے ہمیں دیا ہے“ اور اس عبارت کے نیچے رقم تھا۔ ” کرپشن‘ غربت اور لوٹ مار کا کینسر“۔ اخبارات بتاتے ہیں کہ حسنی مبارک اور اُس کے خاندان نے سترارب ڈالر سے زائد کے اثاثے بنائے۔ بہت جلد اندازہ ہوجائے گا کہ ان اثاثوں پر کیا گزرتی ہے۔
ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا۔ یہ کوئی معمولی فتح نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا سب سے مضبوط ستون گر گیا۔ ملوکیت اور آمریت میں جکڑے ہوئے مشرق وسطیٰ میں تیونس اور مصر کے عظیم عوامی انقلابات نے بہت سے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ایران کا انقلاب‘ عجم کا انقلاب تھا جو سینہ عرب میں بہت زیادہ ہلچل بپا نہ کرسکا لیکن مصر میں حسنی مبارک کی شکست ایک نئے عہد کا دیباچہ بن سکتی ہے۔ تقریباً نو کروڑ انسانوں کا ملک‘ عوامی جذبہ و احساس کے بالکل برعکس‘ خطے میں امریکی اہداف و مقاصد کا سب سے بڑا مورچہ تھا۔ رائے عامہ کے معتبر جائزوں کے مطابق 82 فی صد مصری امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جو پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ حسنی مبارک کا فولادی بُت ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی مفادات کا ایک بڑا پشت پناہ جاتا رہا۔
لیکن عوام کی اس فتح عظیم کے باوجود امریکہ آسانی کے ساتھ مصر سے دست کش نہیں ہوگا۔ سینکڑوں ہاتھ پاؤں رکھنے والے آکٹوپس اور دور تک جڑیں رکھنے ولے ناسور کی طرح امریکی سامراج اپنے زیر اثر ریاستوں میں موثر اداروں اور شخصیات کو بھی اپنی مٹھی میں رکھتا ہے۔ نائب صدر عمر سلیمان‘ مصری انٹیلی جنس کا سربراہ رہا جو سی آئی اے کے ساتھ مل کر امریکی مفادات کی آبیاری کررہی تھی۔ نائن الیون کے بعد ادھر اُدھر سے پکڑ کر لائے جانے والے افراد کو اذیتیں دینے کے لئے مصری عقوبت خانوں میں بھیج دیا جاتا تھا جو ابو غریب‘ بگرام اور گوانتاناموبے سے کئی ہاتھ آگے تھے۔ اخوان المسلمون بھی انہی اذیت گاہوں کا رزق بنی ہوئی تھی۔ حسنی مبارک امریکہ کا ایسا آلہ کار تھا جس نے فلسطینی کاز کوشدید نقصان پہنچایا اور جس نے امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہمیشہ اسرائیلی مفادات کی پاسداری کرتا رہا۔ امریکہ نے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے شعوری کوشش کی کہ وہ حسنی مبارک کے بجائے عوام کے ساتھ کھڑا نظر آئے۔ اوباما کا تازہ ترین ردعمل بھی اسی حکمت عملی کا مظہر ہے جس میں عوامی انقلاب کی ستائش کی گئی ہے۔
دھند چھٹنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ اقتدار کی باگ ڈور فوجی کونسل نے سنبھال لی ہے جس کے سربراہ فیلڈ مارشل محمدحسین طنطاوی ہیں۔ طنطاوی واشنگٹن سے گہرے دوستانہ مراسم رکھتے ہیں اور وہ مصری آئین میں وسیع تر اصلاحات کے بارے میں بھی مثبت رائے نہیں رکھتے۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ اقتدارکی منتقلی کا عمل زیادہ ہموار نہیں ہوگا اور عین ممکن ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف ایک بڑا معرکہ مارلینے کے بعد بھی عوام اپنے ملک کو پوری طرح امریکی اثرورسوخ سے آزاد نہ کراسکیں۔ محمد البرادی جیسے لبرل اور مغرب نواز افراد کو اچھالا اور اجالاجارہا ہے۔حسنی مخالف مظاہروں میں اپنا پورا وزن ڈالنے کے باوجود سب سے منظم اور سب سے معتوب سیاسی گروپ اخوان المسلمون نے اپنے آپ کو نمایاں کرنے سے گریز کیا۔ اس کے ایک رہنما نے بتایا کہ ہم اس تحریک کو مذہبی یا کوئی دوسرا مخصوص رنگ دینا نہیں چاہتے حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد اخوان المسلمون نے بڑے جچے تلے انداز میں فوج کی تعریف کی ہے کہ اُس نے عوام کا ساتھ دیتے ہوئے آمریت پر فیصلہ کن ضرب لگائی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی فوجی کونسل اب اخوان المسلمون کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے بیس ہزار سے زائد قیدی اب بھی جیلوں میں پڑے ہیں۔ وہ اب بھی خلاف قانون تنظیم ہے۔ امریکہ اب بھی اُسے القاعدہ کی مادر مشفق خیال کرتا ہے۔ فلسطین کی حماس کو اس کی توسیع کہا جاتا ہے۔ مصر کے سیاسی افق پر اُس کی نمو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لئے شدید خطرہ ہے اور اسرائیل کے لئے تو یہ پیام مرگ سے کم نہیں جس کی 255 کلومیٹر لمبی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی سے مصر کا 51 کلومیٹر بارڈر جڑا ہوا ہے۔ مصر کے اندر اسلامی تشخص کی حامل اخوان المسلمون کا سیاسی ابھار یقینی طور پر دوسرے ممالک پر بھی اثر انداز ہوگا۔ لبنان کی 79 کلومیٹر سرحد اسرائیل سے ملتی ہے جہاں حزب الله مورچے گاڑے بیٹھی ہے۔سو یقینی امر ہے کہ حسنی مبارک سے دست کش ہوکر بھی امریکہ بہ آسانی مصر سے دستبردار نہیں ہوگا۔ وہ بظاہر مصری عوام سے دوستی کا دم بھرتے ہوئے پوری کوشش کرے گا کہ حقیقی معنوں میں سلطانی جمہور کا سکہ نہ چلنے پائے۔ اخوان المسلمون سر نہ اٹھاسکے۔ اور باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں رہے جو امریکی ڈور سے بندھے ہیں۔ اس مقصد کے لئے اُسے محمد حسین طنطاوی کی سربراہی میں ایک نئی فوجی آمریت بھی قابل قبول ہوگی۔لیکن کیایہ چالبازی چل سکے گی؟ شاید نہیں۔
جس وقت قاہرہ کے آزادی چوک میں دس لاکھ مصری نعرہ زن تھے عین اس وقت تہران کے آزادی چوک میں انقلاب کی بتیسویں سالگرہ مناتے ہوئے ”مرگ بر مبارک“ اور ”مرگ برامریکہ“ کے نعرے لگارہے تھے۔ صدر احمدی نژاد حد نظر تک پھیلے عوام سے کہہ رہا تھا۔ ” ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لے چکا ہے۔ اسرائیل کے وجود اور امریکی بالادستی سے پاک شرق اوسط۔ اب اس خطے میں رعونت کبھی سر نہ اٹھاسکے گی۔ اب امریکہ دوست کا روپ دھار کر سامنے آرہا ہے لیکن ہوشیار اور خبر دار رہنا ۔ وہ تمہارا دوست نہیں ہوسکتا۔ ہم ایرانی تمہارے دوست ہیں۔ ہمیں اپنا راستہ خود چننے کا حق حاصل ہے … امریکیوں!اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تم پر اعتماد کریں تو تیونس اور مصر سمیت کسی ملک کے معاملات انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دو“۔
کیا امریکہ احمدی نژاد کی نصیحت پر عمل کرے گا؟ شاید نہیں کیوں کہ سامراج کی سوچ رعونت کے ایک خاص سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے لیکن نیل کے ساحل سے اٹھتی لہر‘ تہران کی سرزمین سے ہوتی ہوئی کاشغر کی خاک تک پہنچنے کیلئے مچل رہی ہے۔ اُسے روکنا شاید اتنا آسان بھی نہ ہو۔

عرفان صدیقی     
(بہ شکریہ ادہریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں