مصرمیں صدر حسنی مبارک کے اقتدارسے الگ ہونے پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بین کی مون نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں مسٹر مون نے کہا ہے کہ مصریوں نے جمہوریت کی جانب سے ایک قدم اٹھالیا اوردوسرا قدم انتقال اقتدارکی پرامن منتقلی ہے، ہم توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح پہلا مرحلہ بخیریت انجام پذیر ہوا انتقال اقتدار کا مرحلہ بھی اسی طرح طے ہو جائے گا۔
یو این سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اب ہم مصر میں آزادانہ، شفاف اور عوام کی مرضی کے انتخابات چاہتے ہیں تاکہ مصرمیں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی جاسکے۔
حسنی مبارک کی رخصتی اور یورپ
مجموعی طور پر یورپی ممالک نے بھی مصر میں سابق صدر سید حسنی مبارک کے استعفے کا خیر مقدم کیا ہے۔ فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی نے رد عمل میں کہا کہ “حسنی مبارک نے ایک ضروری اور جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصر میں نئی انتظامیہ جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیےکام کرے گی۔
یورپی یونین کمیشن کی خارجہ امورکی نگران کیتھرین آشٹن کا کہنا تھا کہ وہ حُسنی مبارک کے اقتدار سے الگ ہونے کواحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، کیونکہ مسٹر مبارک نے قوم کے مطالبات کا احترام کیا ہے۔ انہوں نے نئی حکومت کی تشکیل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کےدرمیان بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔
دوسری جانب برطانیا، جرمنی اور روس کی جانب سے بھی صدر حسنی مبارک کے عوامی مطالبے پر استعفے کا خیر مقدم کیا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے جہاں صدر مبارک کے حکومت سےعلاحدہ ہونے کی تعریف کی گئی ہے وہیں ملک میں جمہوری سفرتیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
عرب ممالک کے عوام خوشی سے جھوم اٹھے
العربیہ نےنامہ نگاروں کے مطابق ٹی وی پرنائب مصری صدر عمر سلیمان کے حسنی مبارک کی سبکدوشی کے اعلان کے ساتھ ہی پوری عرب دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ حسنی مبارک کے استعفے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور لوگ گھروں سے نکل کر کھلے مقامات اور سڑکوں پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔
تیونس میں، لبنان، لیبیا، اُردن، فلسطین اورکئی دوسرے ملکوں میں صدرمبارک کی سبکدوشی پرجشن کا سماں ہے۔ تیونس میں حسنی مبارک کی رخصتی پرایک ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ غزہ کی پٹی میں شہریوں نے رات بھر ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کا سلسلہ جاری رکھا۔
سوئٹزرلینڈ میں مبارک خاندان کے اکاٶنٹس منجمد
سوئس حکومت نےاعلان کیا ہے کہ اس نےعارضی طور پر مستعفی مصری صدرحسنی مبارک اوران کے خاندان سمیت حکمران جماعت این ڈی پی کے کئی سرکردہ رہ نماٶں کے بنک اکاٶنٹس منجمد کر دیے ہیں۔
سوئس حکام کا کہنا ہے کہ وہ مصر میں بننے والی نئی حکومت سے مشاورت کے بعد قاہرہ کی تجاویز کی روشنی میں سابق صدرکے اثاثوں بارے کوئی فیصلہ کریں گے، کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مصرکی نئی حکومت سابق صدرکے اثے منجمد کرانے کی ہدایت کرے۔
اُدھرجرمن چانسلرانجیلا میریکل نے صدرمبارک کی سبکدوشی کا خیرمقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ مصرمیں نئی بننے والی کسی بھی حکومت کواسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام امن معاہدوں کی پاسداری کرنا ہوگی۔
اسی پیش رفت میں اسرائیلی حکومت کےایک ترجمان نے امید ظاہرکی ہے کہ مصرمیں صدرحسنی مبارک کے جانے کے بعد آنے والی تبدیلی قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان دوستانہ تعلقات کومتاثرنہیں کرے گی۔
“مصری آج فتح یاب ہو گئے”
ادھرعرب ملک قطر اور ایران نے مصرمیں عوامی احتجاج کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے حسنی مبارک کے استعفے کو”اہم ترین واقعہ” قرار دیا ہے۔
قطرحکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ حسنی مبارک کی رخصتی ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اب مصری عوام کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
تہران نے حسنی مبارک کے استعفے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے مصری عوام کی “فتح عظیم” سے تعبیر کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ مغرب مصری انقلاب کو ہائی جیک کرنا چاہتا تاہے لیکن مصری عوام اب آزاد ہو چکے ہیں۔
آپ کی رائے