بینظیر قتل میں مشرف کے وارنٹ جاری

بینظیر قتل میں مشرف کے وارنٹ جاری
pervez_musharrafاسلام آباد(بى بى سى) راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

عدالت نے اُنہیں اُنیس فروری تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کے جج رانا نثار نے سنیچر کے روز بینظیر بھٹو قتل کے مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی۔
ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ اس مقدمےکے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے کی اب تک کی جانے والی تفتیش میں اس لیے پیشرفت نہیں ہوسکی کیونکہ سابق فوجی صدر بارہا بلوانے کے باوجود تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
اُنہوں نےکہا کہ چونکہ پرویز مشرف ان دنوں لندن میں مقیم ہیں اس لیے تفتیش کے حوالے سے اُنہیں ایک سوالنامہ بھی بھیجا گیا جس کا اُنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹوکا قتل کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سازش کے تحت اُنہیں قتل کیا گیا اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو قتل کی اس سازش کا علم تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ سابق فوجی آمر نے بارہا کہا تھا کہ اگر بینظیر بھٹو پاکستان آئیں تو اُن کی سکیورٹی اُن کےساتھ تعلقات پر مشروط ہوگی۔
اُنہوں نے کہا کہ عدالت سے استدعا کی کہ اس قتل کے مقدمے کی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے پرویز مشرف کی گرفتاری ضروری ہے لہٰذا عدالت اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے۔ عدالت نے سابق فوجی صدر کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کے حکام کو اُنہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ گُزشتہ سماعت کے دوران عدالت میں پیش کیےگئے اس مقدمے کے عبوری چالان میں پرویز مشرف کا نام ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔اس مقدمے میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر پرویز مشرف آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو اُنہیں اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی کی جائے گی۔
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے جو سازش تیار کی گئی تھی اُس سے متعلق پرویز مشرف، سابق سٹی پولیس افسر راولپنڈی ڈی آئی جی سعود عزیز اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود آگاہ تھے اور یہ اُن افراد کے معاون کار تھے جنہوں نے بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کیا تھا۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ میں نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے سابق سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ اور انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ اعجاز شاہ نے تفتیشی ٹیم کو جو بیان دیا تھا اُس میں اُنہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد راولپنڈی میں صدارتی کیمپ میں ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی جائے جس میں کہا جائے کہ سابق وزیر اعظم کی موت اُس گاڑی کا لیور لگنے کی وجہ سے ہوئی جس میں وہ سوار تھیں۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اُس وقت کی حکومت کیسے اتنی جلدی نتیجے پر پہنچ گئی جبکہ ابھی اس مقدمے کی تفتیش شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں