مصریوں کو انٹرنیٹ سروسز سے محروم کرنے کے لیے اسرایئلی ٹیکنالوجی کا استعمال

مصریوں کو انٹرنیٹ سروسز سے محروم کرنے کے لیے اسرایئلی ٹیکنالوجی کا استعمال
internetحیفا(العربيہ) مصر میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے لیے جاری عوامی احتجاج میں ایک ہفتے تک انٹرنیٹ کی سروسز کی بندش کے لیے اسرائیل میں تیارکردہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک اسرائیلی اخبارنے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مصری عوام کو انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم کرنے کے لیے قاہرہ حکام نے تل ابیب سےجدید ٹیکنالوجی اورسافٹ ویئر مستعار لیے تھے۔

ایک بزنس اخبار”کالکلیسٹ” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ “مصری حکام کے لیے یہ سننا ناگوار ہو گا تاہم حقیقت یہ ہے کہ جمہوریہ مصر میں انقلابی تحریک کے پہلے ہفتےمیں انٹرنیٹ سروسز جام کرنے کے لیے جو جدید نوعیت کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی وہ اسرائیل سے حاصل کردہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ سروسز معطل کرنے کے لیے”نروس” نامی ایک یہودی کمپنی نے سنہ 1997ء میں جدید ٹیکنالوجی کی تیاری شروع کی تھی۔ “نروس” کی تیارہ کردہ ٹیکنالوجی کا کئی دیگر ممالک میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس یہ کمپنی امریکی “بوئنگ “کمپنی نے 07 کروڑ ڈالرز میں خرید لی تھی۔ کمپنی کی بنیاد تین اسرائیلی انجینئروں ڈاکٹر اوری کوھن، سطاس حیمرون اور اورئین ارئیل نے رکھی تھی۔ اب اس کے تینوں بانیان کمپنی کو چھوڑ چکے ہیں تاہم اس وقت اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد ڈیرھ سو سے زیادہ ہے۔
جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی تیار کرنے والی یہ کمپنی صرف انٹرنیٹ سروس جام کرنے لیے سافٹ ویئرہی تیار نہیں کرتی بلکہ اسرائیلی سراغ رساں ادارے اس کے تیار کردہ آلات کی مدد سے ٹیلیفون کالیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی آڈیو اور ویڈیو کالز بھی ریکارڈ کر رہے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ مصر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کی خدمات مہیا کرنے والی سب سے بڑی کمپنی “ایجیٹ ٹیلی کام” کی سروسز کی معطلی میں “نروس” کا کلیدی کردار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایجیٹ ٹیلی کام مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سعودی عرب اور پاکستان میں بھی مواصلات کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایجیٹ ٹیلکام کی سروسز پورے ملک میں معطل کی گئی ہیں۔
نروس کمپنی دنیا بھرمیں کہیں بھی انٹرنیٹ کےذریعے ہونے والے ای میل روابط، ٹیلیفون یاچیٹ روم کے ذریعے ہونے والی بات چیت کا مکمل ریکارڈ رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں