پاکستان میں امریکیوں کاخفیہ مشن؟

پاکستان میں امریکیوں کاخفیہ مشن؟
rymond-davisجس لمحے ریمنڈ (اس کا اصل نام جو کچھ بھی ہو) نے دو نوجوان پاکستانیوں کو لاہور جیل روڈکی مصروف ترین زنگ چورنگی کے نزدیک قتل کیا تھا، اور تیسرے شخص کی ہلاکت ایک ٹریفک حادثے میں ہوئی تھی، اس دن سے امریکی حکومت نے اس قاتل کے لئے استثنیٰ کا شور مچا رکھا ہے جس نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں ان دونوں نوجوانوں پر گولی چلائی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ پولیس کی تحقیقات کو متاثر کر کے عدالتی تحقیقات کے سلسلے کو کسی بھی طرح روک دیا جائے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکی سفارت کاروں نے وہ دوسری کار اور اس کے ڈرائیور کو ان لوگوں سمیت جو اس کار میں سوار تھے، جس نے پچیس سالہ عبیدالرحمن کو ہلاک کردیا تھا، جو لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کا ایک بیوپاری تھا اور جس کا قطعاً ”ریمنڈ ڈیوس“ اور دو نام نہاد ”ڈاکوؤں“ کے واقعے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کے بجائے امریکی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی حکام ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیں اور پولیس کو اس الزام کا سزاوار قرار دیں کہ اس نے غیر قانونی طور پر ریمنڈ ڈیوس کو حراست میں لے کر سفارتی تعلقات کے حوالے سے وی آنا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اسی پیمانے کو استعما ل کرتے ہوئے اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ امریکیوں کو اوراُن کے پاکستانی ملازمین کو پویس کی جانب سے تحقیقات کی غرض سے حوالے نہ کیا جائے جو عبیدالرحمن کی ہلاکت کا ذمے دار کار کے ڈرائیور کی تیز رفتاری کو تصور کرتی ہے۔ یہ سب کچھ سفارتی استثنیٰ کے نام پر کیا جارہا ہے جس کے بارے میں پاکستانی میڈیا کے ایک حصے کا ماننا ہے کہ اس طرح قاتل کو قتل کرنے کا لائسنس دیا جارہا ہے۔
امریکی سفارت خانے نے سات پیراگرافوں پر مشتمل ایک طویل بیان جاری کیا ہے جس میں مرحومین کے لئے صرف اورفقط دس الفاظ ہی استعمال کئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے ”ہمیں افسوس ہے کہ یہ واقعہ موت کا سبب بن گیا“ ملاحظہ فرمایا آپ نے امریکی سفارت خانے نے عبیدالرحمن جیسے معصوم اور بے گناہ فرد کی ہلاکت پر اظہار غم کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہی وہ عدم حساسیت ہے جو امریکا کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنتی جارہی ہے۔ امریکی سفارت خانے کے اس مبہم اعلان میں فیضان حیدر اور محمد فہیم کی اموات کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیاگیا کیونکہ اس میں واضح طور سے یہ کہا گیا ہے کہ ان دونوں نوجوانوں کا پس منظر مجرمانہ تھا اور چند منٹ قبل ہی ان دونوں نے اسی علاقے میں ایک پاکستانی باشندے کو بھی گن پوائنٹ پر لوٹا تھا۔امریکی سفارت خانے نے خود ہی سمجھ لیا ، کہ یہ دونوں موٹر سائیکل سوار، مسلح نوجوان مجرم تھے اور سفارت کار ریمنڈ ڈیوس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کیونکہ اسے پورا یقین تھا کہ یہ دونوں اسے جسمانی نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ چنانچہ امریکی سفارت خانے کو پورا یقین ہے کہ قاتل کو نہ گرفتار کیا جاسکتا ہے نہ ہی اس پر کسی مقامی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے کیونکہ قاتل کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ دوسری جانب پولیس ابھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی کہ فیضان حیدر اور محمد فہیم مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں اگرچہ کہ اس واقعہ کی ابتدا میں بعض سینئر پولیس اہلکاروں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ دونوں ہلاک شدگان لوٹ مار کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
بہرنوع اب یہ فیصلہ کرنا پولیس کا کام ہے کہ یہ دونوں نوجوان واقعی ڈاکو تھے اور ریمنڈ ڈیوس کو لوٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ جب کہ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ آیا ریمنڈ ڈیوس ایک سفارت کار ہونے کے ناتے سفارتی استثنیٰ کا فی الواقعی مستحق ہے یا نہیں؟؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایک سیدھا سادا سا واقعہ ہے جسے پولیس کے پیسہ ورانہ تحقیقات کرنے والے بہت جلد نمٹانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اگر کوئی سیاسی دباؤ موجود نہ ہو تو عدالتی طریقہ کار بھی بڑے ہموار طریقے سے جاری رہ سکتا ہے۔ بہرکیف اگر ہم ماضی پر ایک نگاہ ڈالیں تو ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ سیاست اور سفارت کاری اپنا جلوہ ضرور دکھاتے ہیں اور یہاں تو معاملہ امریکا جیسی قوت کا ہے جو پاکستان کے کمزور حکمرانوں پر ہر ممکن اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
بہرنوع اگر ریمنڈ ڈیوس کو ایک ایسا سفارت کار دیدیا جاتا ہے سے بوجوہ سفارتی استثنیٰ حاصل ہے تو اسے امریکا میں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس طریقے سے امریکی سفارت خانہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی قانون سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہا ہے اس کے پیش نظر تو پاکستانیوں کو اس بات کاقائل کرنا ازحد مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ امریکی عدالت اس معاملے میں پورا انصاف فراہم کرے گی۔
اس واقعہ کے بہت سے پہلو ابھی غیر واضح ہیں حتی کہ ریمنڈ ڈیوس کا اصل نام بھی کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا نام صحیح بتایا جارہا۔ گویا اس کی اصل شناخت اور کام کی نوعیت، ابھی تک پوشیدہ ہے لہذٰا یہ معلوم کرنا ناممکن ہوگیا ہے کہ پاکستان میں وہ کیا کام کررہا تھا یا اسے کیا خاص ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔
امریکی سفارتخانے کا اصرار ہے کہ ریمنڈڈیوس کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اور اس کے پاس پاکستانی ویزا بھی تھا جو جون2012ء کا کارآمدہے۔ بہرحال پاکستانی حکام نے اس امریکی دعوے کی تردید کردی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارت کار ہے۔ اگرچہ کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ ریمنڈ ایک ٹیکنیکل ایڈوائزر کی حیثیت سے لاہور میں امریکی قونصل خانے س منسلک تھا۔ اس سے قبل اے بی سی نیوز نے اس کی اصل شناخت کے بارے میں بتایا تھا کہ ریمنڈ فلوریڈا کی ایک پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی میں بطور ملازم کام کرچکا ہے جس کا نام ہائی پیرین پروٹیکٹو کنسلٹنٹس ہے۔گزشتہ سال 3 فروری کو پاکستان میں امریکی فوجی اہکاروں کی بابت اس وقت پتا چلا تھا جب تین امریکی سپاہی ایک خودکش بم دھماکے میں مارے گئے جو پاکستانی طالبان نے خیبر پختوانخواہ کے علاقے لوئر دیر ضلع میں کیا تھا۔ اس دھماکے میں پانچ پاکستانی بھی جاں بحق ہوئے تھے جن میں فرنٹیر کانسٹیبلری کے اہلکار بھی شامل تھے۔ جو ان امریکیوں کو اپنی حفاظت میں لے کر جارہے تھے۔ ان امریکیوں نے خود ک چھپانے کی غرض سے شلور قمیض پہن رکھا تھا اور سروں پر مقامی ٹوپیاں اوڑ رکھی تھیں۔وہہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ایک اسکول کا معائنہ کرنے کی غرض سے جارہے تھے تاکہ اسے امریکی پیسے کی مدد سے دوبارہ تعمیر کیا جاسکے۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانیوں کے علم میں یہ بات آئی کہ خصوصی امریکی فوجیوں کیارکان جن کی تعداد دو سو کے لگ بھگ تھی پاکستان میں خفیہ طریقے سے کام کررہے ہیں۔ بہرحال پاکستانی حکومت اور فوج نے اس حقیقت کو پاکستانی باشندوں سے پوشیدہ رکھا تھا۔ کون جانے ریمنڈ ڈیوس جیسے کتنے لوگ پاکستان میں خفیہ مشن پر کام کررہے ہیں جنہیں حکومت پاکستان کی رضامندی حاصل ہے بھی یا نہیں۔

رحیم اللہ یوسف زئی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں