آخری دن…!

آخری دن…!
egypt_8وہ لاکھوں میں تھے۔ دس، بیس، تیس، چالیس لاکھ یا پھر اس سے بھی زیادہ۔ بچے، بوڑھے، نوجوان، مرد، عورتیں، ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، وکلا، یونیورسٹیوں کے طالب علم، سب کے دلوں میں ایک ہی عزم کی شمع روشن تھی، سب کے سروں میں ایک سودا سمایا ہوا تھا، سب کی آنکھوں میں ایک ہی خواب فروزاں تھا اور سب کے ہونٹوں پر ایک نعرہ مچل رہا تھا۔
”مبارک جاگ جاؤ! آج تمہارا آخری دن ہے“۔

آخری دن ہر ایک کی زندگی میں آتا ہے۔ جلد یا بدیر۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ لوگ اس دن کو بھولے رہتے ہیں۔ خاص طور پر مطلق العنان آمروں کی تقویم میں آخری دن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی سلطنت پر اپنے آہنی شکنجے اور کروڑوں انسانوں پر جابرانہ تسلط کے باعث وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ تقدیر ان کی مٹھی میں ہے۔ کارکنان قضا و قدر بھی ان کے دربار خاص کا حصہ ہیں۔ وقت کی ہر کروٹ ان کے اشارہ ابرو سے بندھی ہے۔ ان کے افق اقتدار میں مغرب نام کی کوئی شے نہیں، جہاں سورج غروب ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی بیاض حکمرانی سے آخری دن کا ورق پھاڑ دیتے اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ان کے تاج و تخت پر کبھی آنچ نہیں آئے گی۔
لاکھوں عوام قاہرہ، سکندریہ، سویز اور چھوٹے بڑے شہروں میں سڑکوں پہ تھے اور تین دہائیوں سے سرزمین نیل پر جابرانہ حکمرانی کرنے والا ڈکٹیٹر اپنی عشرت گاہ میں زرد پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ اس کی خواب گاہ کے آپنوسی دروازے پر ”آخری دن“ ہولے ہولے دستک دے رہا تھا اور تیس سال سے جبر کے فرعونی ہتھکنڈوں کے زور پر حکمرانی کرنے والا ڈکٹیٹر، آخری دن کی آسیبی دستک سے ہراساں اپنے آپ میں سمٹا جارہا تھا۔ اہرام مصر کے آس پاس منڈلاتی، فرعونوں کی بد روحیں، عبرت کا ایک اور تماشا دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے کہہ رہی تھیں ”قدرت کے اصول بھی کتنے اٹل ہوتے ہیں“۔
محمد حسنی سید مبارک، 1975ء میں عرب جمہوریہ مصر کا نائب صدر بنا۔ صدر انور سادات کی ایک فوجی پریڈ کے دوران ہلاکت کے بعد وہ 14/اکتوبر 1981ء کو صدر کے عہدے پر فائز ہوا۔ حکمران بارگاہوں سے مستقل طور پر وابستہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) اسے ورثے میں ملی۔ آمریت اور شخصی حکمرانی کے تصور پر مبنی مصری آئین میں کسی دوسری سیاسی قوت کے لئے پنپنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ہر چھ برس بعد صدارتی انتخابات کا ایک ناٹک رچایا جاتا تھا۔ 1987ء، 1993ء اور 1999ء کے انتخابات میں حسنی مبارک نوے فی صد کے لگ بھگ ووٹ لے کر کامیاب ہوتا رہا۔ یہ انتخابات ہمارے ہاں کے ریفرنڈم سے مشابہہ تھے۔ کسی دوسرے امیدوار کو حسنی مبارک کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی۔ یہی حال پارلیمینٹ کا تھا جو ہمیشہ حکمران جماعت کے قبضہ قدرت میں رہتی۔ عوامی دباؤ کے سبب حسنی مبارک نے 2005ء کے انتخابات سے قبل یہ آئینی ترمیم کرائی کہ مخالف امیدوار کو بھی صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ میدان سجنے سے پہلے ہی دباؤ، جبر، دھاندلی اور زور زبردستی کی آندھی چلی۔ ڈاکٹر ایمان نور نے پھر بھی مقابلہ کیا۔ یکطرفہ نتائج کے بعد ایمان نور نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس گستاخی پر ڈاکٹر نور کو گرفتار کرلیا گیا۔ مقدمہ چلا اور پہلی بار حسنی مبارک کے مقابلے کی جسارت کرنے والے شخص کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔
1952ء میں شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر، مصر کو عوامی جمہوریہ کا درجہ دینے والوں نے نہ عوام کے جذبہ و احساس کو اہمیت دی، نہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے دیا۔ بادشاہت کے بعد، عوام کے نام پر شخصی آمروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جنرل نجیب، جمال عبدالناصر، انور سادات اور حسنی مبارک، کسی نے بھی عوامی امنگوں کی ترجمان ایسی جمہوریت قائم نہ ہونے دی جو ان کی شخصی حکمرانی کے لئے خطرہ بنتی۔ عرب نیشنلزم کا بت تراشنے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن اسلامی تشخص کو ہمیشہ ایک بڑا خطرہ سمجھا گیا۔ ہولے ہولے عرب نیشنلزم کی ناک میں امریکی بالادستی کی نکیل ڈال دی گئی۔ 1967ء میں صحرائے سینا اسرائیلیوں کے قبضے میں آگیا۔ 1970ء میں ناصر کا انتقال ہوگیا۔ اقتدار انور سادات کے ہاتھ آگیا۔ 1981ء میں سادات کے قتل نے نائب صدر حسنی مبارک کے لئے قصر صدارت کا دروازہ کھول دیا۔
مصر کے عوام مستقلاً جبر کے شکنجے میں رہے۔ 1967ء سے لے کر اب تک، مصر میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ صرف چھ ماہ کا وقفہ 1980ء میں آیا۔ ایمرجنسی قوانین کے تحت، چوالیس برس سے مصری عوام کے بنیادی حقوق معطل ہیں۔ پولیس کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتی ہے۔ کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اسے کسی بھی مدت کے لئے جیل میں ڈال سکتی ہے۔ اس وقت مصر میں سیاسی قیدیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے جن میں بھاری تعداد اسلامی تشخص کی حامل تنظیم اخوان المسلمون کے ارکان کی ہے جو برس ہا برس سے مصر کے آمروں کا خصوصی ہدف چلی آرہی ہے۔ ایمرجنسی کے تحت حکومت کو سنسر شپ کے جابرانہ اختیارات حاصل ہیں۔ میڈیا مفلوج ہے۔ اجتماع کی آزادی ہے نہ مظاہروں کی۔ حبس اور گھٹن کی وہ کیفیت ہے کہ نو کروڑ مصریوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔
یہ سب کچھ یکایک نہیں ہوا۔ لاوہ دیر سے پک رہا تھا۔ حسنی مبارک کے اقتدار کی صبح اول کو پیدا ہونے والا بچہ اب تیس سال کا جوان بن چکا ہے۔ ایک طرف غلامانہ زندگی کے تلخ شب و روز ہیں۔ دوسری طرف غربت، پسماندگی، بے روزگاری اور مہنگائی کا آسیب، تیسری طرف روح مصر کے اسلامی تشخص سے متصادم لبرل فاشزم پر مبنی پالیسیاں، چوتھی طرف امریکی بالادستی کا عفریت جس نے مصر کو اسرائیلی مفادات کا امین بنادیا ہے، پانچویں طرف کرپشن اور اقربا پروری کی کہانیاں۔ مصری عوام مچھیرے کے جال میں پھنسی نو گرفتار مچھلیوں کی طرح تڑپ رہے تھے لیکن کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔ آمریت کے دشت بے اماں میں توانا اپوزیشن کا کوئی پودا اگ ہی نہ سکا۔ اخوان المسلمون، امریکہ، مصر اور اسرائیل کا خصوصی ہدف تھی لیکن تمام تر اذیتوں، عقوبتوں، پھانسیوں اور قید و بند کے باوجود وہ تبدیلی کے لئے بے چین مصری عوام کے دلوں میں چنگاریاں بوتی رہی۔ حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کے افکار نے فرعونوں کی سرزمین میں روح محمد صلى الله عليہ وسلم کا چراغ روشن رکھا۔ سال ہا سال پر محیط آمریت، امریکی سرپرستی میں پھن پھیلائے پھنکارتی رہی لیکن مصری عوام کے دل و دماغ میں ”روشن خیالی“ کے لبادے میں چھپی ”اسلام بیزاری“ کا بیج نہ بوسکی۔ 2005ء کے پارلیمانی انتخابات میں، اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ 88ارکان کامیاب ہوئے۔ یہ کل ارکان کا 20فی صد تھا۔
تیس برس سے مصر پہ قابض حسنی مبارک کل تک اپنے بیٹے جمال مبارک کے سر پر صدارتی تاج سجانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ آج خود اس کے لئے سرزمین نیل تنگ ہوگئی ہے۔ اس نے اعلان کردیا ہے کہ میں ستمبر 2011ء کے صدارتی انتخابات نہیں لڑوں گا۔ لیکن ”آخری دن“ بدستور اس کی خواب گاہ کے باہر کھڑا آبنوسی دروازے پر زور زور سے دستک دے رہا ہے۔ اب تو ابوالہول کے مجسمے کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو بھی صبح نو کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ فوج نے منہ پھیر لیا ہے اور امریکہ نئے موسموں کے پیکر تراش رہا ہے۔(جاری ہے)

عرفان صدیقی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں