زاہدان(سنی آن لائن) مولاناعبدالحمید نے ’سانحہ تایباد‘ کے عوامل واسباب کو واضح کرتے ہوئے شیعہ وسنی کے جمعے کے اجتماعات کے درمیان فرق پر روشنی ڈالی۔
ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا ہمارے جمعہ کے اجتماعات عبادت کیلیے ہوتے ہیں سیاست کیلیے نہیں۔ جبکہ (ایران میں) شیعہ خطباء حکومت کی جانب سے منصوب ہوکر جمعے کے اجتماع قائم کرتے ہیں جو عبادتی کم اور سیاسی زیادہ ہواکرتے ہیں۔
ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا ہمارے جمعہ کے اجتماعات عبادت کیلیے ہوتے ہیں سیاست کیلیے نہیں۔ جبکہ (ایران میں) شیعہ خطباء حکومت کی جانب سے منصوب ہوکر جمعے کے اجتماع قائم کرتے ہیں جو عبادتی کم اور سیاسی زیادہ ہواکرتے ہیں۔
گزشتے ہفتے میں ایران کے شمال مشرقی شہر تایباد جہاں سنی برادری اکثریت میں ہے، کے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اہل سنت برادری کے جمعے کے اجتماعات کا تعلق 1979ء کے عوامی انقلاب سے نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی یہ تاریخی اجتماعات برپا ہوتے تھے اور سنی عوام بڑے شوق سے جمعے کی نماز کیلیے جوق درجوق آتے تھے۔ البتہ اناسی کے انقلاب کے بعد ان کے رونق میں اضافہ ہوا۔ اس انقلاب سے پہلے اہل تشیع کے جمعہ اجتماعات بہت ہی بے رونق تھے اور کم ہی لوگ جمعے کیلیے جاتے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا انقلاب سے قبل زاہدان شہر میں عوام جمعہ کیلیے ’’مسجد عزیزی‘‘ میں جمع ہوتے تھے، عیدین میں کوئی بھی مرد گھر میں نہیں رہتا، سب عیدگاہ میں اکٹھے ہوتے تھے۔ مزید برآں اہل سنت والجماعت کے نزدیک جمعہ کے اجتماع عبادت اور دعا کیلیے ہوتاہے سیاست بازی کیلیے نہیں، ہمارے عوام کے لیے عبادت، تضرع وزاری اور استغفار سیاسی باتوں کے سننے سے زیادہ اہم ہے۔ سیاسی مسائل بہت کم بیان ہوتے ہیں وہ بھی جب کوئی خاص واقعہ پیش آتا ہے اور مجبوراً کوئی بات کہنا پڑتی ہے۔
نامور سنی عالم دین نے مزید کہا اہل سنت اور اہل تشیع کے خطباء وائمہ جمعہ کے انتخاب کا طریقہ مختلف ہے۔ سنی علاقوں میں جو عالم دین زیادہ اثر ورسوخ رکھتا ہے اور عوام اس کی بات مانتے ہیں خطیب وامام مقرر ہوتا ہے۔ پوری تاریخ میں سنی خطباء کے انتخاب کا کام عوام نے سرانجام دیا ہے۔ حکام نے بھی صرف ایسے خطباء کی تائید وتصدیق کی ہے جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ بلاشبہ عوام ایسے فرد کو اپنا پیش امام متعین کرتے ہیں جس کے اقتدا میں سکون واطمینان کے ساتھ نماز پڑھ سکیں۔ ائمہ وخطباء سنی عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور انہیں بہت ہی عزت حاصل ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا عام طور پر سنی ائمہ اپنی مسجدوں کے بانی ہوتے ہیں، جبکہ شیعہ مساجد کو اہل خیر لوگ یا سرکاری ادارے تعمیرکرتے ہیں، اس کے بعد کوئی عالم دین امام یا خطیب مقرر ہوتاہے۔ سنی عوام ایک عالم دین کا انتخاب کرتے ہیں پھر مسجد کی تاسیسی میں اس عالم کی حمایت کرتے ہیں اور وہی ان کا پیش امام یا خطیب ہوتا ہے۔ زاہدان میں جب لوگ مسجد تعمیر کرنا چاہیں پہلے ہمارے پاس آتے ہیں اور عالم دین طلب کرتے ہیں، پھر مسجد کی تعمیر کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ ایک ثقافتی وعلاقائی فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا ایران میں شیعہ برادری کے اجتماعات جمعہ کیلیے ’’سیاسی عبادتی‘‘ ہوتے ہیں بلکہ عبادتی کم اور سیاسی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے خطباء وائمہ کی تبدیلی، عزل ونصب ان کے یہاں عام بات ہے۔ اس پر کوئی اعتراض وشکوہ بھی نہیں کرتا، جسے حکومت ان کا امام، خطیب یا گورنر مقرر کرے وہ بلا اعتراض اسے مانتے ہیں۔ حالانکہ ان ائمہ کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے۔ لیکن اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں، جو شخص عوام میں مقبول ہوتا ہے، مقامی اور متعلقہ علاقے کے لوگوں کا رشتہ دار ہو تا ہے وہی امام وخطیب مقرر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے ائمہ وخطباء کا عزل ونصب ایک حساس معاملہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی اگر تایباد میں ان باتوں کو مدنظر رکھا جاتا اور عوام کے مقبول خطیب کو زبردستی معزول کرکے حکومت کے منظورنظر شخص کو بزور بازو خطیب مقرر نہ کیاجاتھا تو یہ افسوسناک واقعات اور عوامی احتجاجات پیش نہ آتے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عوامی حکومت کیلیے مناسب نہیں عوام کو خود سے بیزار کرے اور انہیں احتجاج پر مجبور کرے، مولانا عبدالحمید نے مزید کہا اگر حکام کو کسی خطیب سے شکایت ہو تو گفت وشنید سے اپنی بات حل کرائیں، عوام کو ایسے فرد کے پیچھے نماز پڑھنے پر مجبور نہ کریں جسے وہ نہیں چاہتے۔ حکومتیں چاہے شیعہ ہوں یا سنی، اسلامی ہوں یا غیر اسلامی لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے احتزار کریں۔ انہیں ایساکرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
کیوں گھروں میں با جماعت نماز حکومت کے مزے لوٹنے والوں کے لیے ناقابل برداشت ہے؟ ایران کے بڑے شہروں کرمان، اصفہان، تہران اور کاشان میں سنی برادری کو کیوں باجماعت نماز ادائیگی کی اجازت نہیں؟ ہم اس پر خاموش نہیں رہیں گے اور یہ حرکت اہل سنت ایران کیلیے ناقابل قبول ہے۔
انہون نے کہا جو حکومت اتحاد بین المسلمین کا دعویدار ہے اس کیلیے مناسب نہیں مسلمانوں کے سب سے بڑے مسلک اہل سنت والجماعت کے پیروکاروں کو ایران میں تنگ کرے اور ان کے بنیادی حقوق نظر انداز کرے۔ امید ہے حکام ہمیں دوسرے درجے کے شہری شمار نہ کریں۔ ایران ہمارا وطن ہے، ہم ایران کے وارث و مالک ہیں، امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ تایباد میں بھی عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔
ان کے منتخب امام وخطیب کی برطرفی سے تایبادی عوام کے علاوہ جس نے یہ خبر سنی ہے وہ پریشان ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا انقلاب سے قبل زاہدان شہر میں عوام جمعہ کیلیے ’’مسجد عزیزی‘‘ میں جمع ہوتے تھے، عیدین میں کوئی بھی مرد گھر میں نہیں رہتا، سب عیدگاہ میں اکٹھے ہوتے تھے۔ مزید برآں اہل سنت والجماعت کے نزدیک جمعہ کے اجتماع عبادت اور دعا کیلیے ہوتاہے سیاست بازی کیلیے نہیں، ہمارے عوام کے لیے عبادت، تضرع وزاری اور استغفار سیاسی باتوں کے سننے سے زیادہ اہم ہے۔ سیاسی مسائل بہت کم بیان ہوتے ہیں وہ بھی جب کوئی خاص واقعہ پیش آتا ہے اور مجبوراً کوئی بات کہنا پڑتی ہے۔
نامور سنی عالم دین نے مزید کہا اہل سنت اور اہل تشیع کے خطباء وائمہ جمعہ کے انتخاب کا طریقہ مختلف ہے۔ سنی علاقوں میں جو عالم دین زیادہ اثر ورسوخ رکھتا ہے اور عوام اس کی بات مانتے ہیں خطیب وامام مقرر ہوتا ہے۔ پوری تاریخ میں سنی خطباء کے انتخاب کا کام عوام نے سرانجام دیا ہے۔ حکام نے بھی صرف ایسے خطباء کی تائید وتصدیق کی ہے جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ بلاشبہ عوام ایسے فرد کو اپنا پیش امام متعین کرتے ہیں جس کے اقتدا میں سکون واطمینان کے ساتھ نماز پڑھ سکیں۔ ائمہ وخطباء سنی عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور انہیں بہت ہی عزت حاصل ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا عام طور پر سنی ائمہ اپنی مسجدوں کے بانی ہوتے ہیں، جبکہ شیعہ مساجد کو اہل خیر لوگ یا سرکاری ادارے تعمیرکرتے ہیں، اس کے بعد کوئی عالم دین امام یا خطیب مقرر ہوتاہے۔ سنی عوام ایک عالم دین کا انتخاب کرتے ہیں پھر مسجد کی تاسیسی میں اس عالم کی حمایت کرتے ہیں اور وہی ان کا پیش امام یا خطیب ہوتا ہے۔ زاہدان میں جب لوگ مسجد تعمیر کرنا چاہیں پہلے ہمارے پاس آتے ہیں اور عالم دین طلب کرتے ہیں، پھر مسجد کی تعمیر کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ ایک ثقافتی وعلاقائی فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا ایران میں شیعہ برادری کے اجتماعات جمعہ کیلیے ’’سیاسی عبادتی‘‘ ہوتے ہیں بلکہ عبادتی کم اور سیاسی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے خطباء وائمہ کی تبدیلی، عزل ونصب ان کے یہاں عام بات ہے۔ اس پر کوئی اعتراض وشکوہ بھی نہیں کرتا، جسے حکومت ان کا امام، خطیب یا گورنر مقرر کرے وہ بلا اعتراض اسے مانتے ہیں۔ حالانکہ ان ائمہ کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے۔ لیکن اہل سنت کے یہاں ایسا نہیں، جو شخص عوام میں مقبول ہوتا ہے، مقامی اور متعلقہ علاقے کے لوگوں کا رشتہ دار ہو تا ہے وہی امام وخطیب مقرر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے ائمہ وخطباء کا عزل ونصب ایک حساس معاملہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی اگر تایباد میں ان باتوں کو مدنظر رکھا جاتا اور عوام کے مقبول خطیب کو زبردستی معزول کرکے حکومت کے منظورنظر شخص کو بزور بازو خطیب مقرر نہ کیاجاتھا تو یہ افسوسناک واقعات اور عوامی احتجاجات پیش نہ آتے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عوامی حکومت کیلیے مناسب نہیں عوام کو خود سے بیزار کرے اور انہیں احتجاج پر مجبور کرے، مولانا عبدالحمید نے مزید کہا اگر حکام کو کسی خطیب سے شکایت ہو تو گفت وشنید سے اپنی بات حل کرائیں، عوام کو ایسے فرد کے پیچھے نماز پڑھنے پر مجبور نہ کریں جسے وہ نہیں چاہتے۔ حکومتیں چاہے شیعہ ہوں یا سنی، اسلامی ہوں یا غیر اسلامی لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے احتزار کریں۔ انہیں ایساکرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
کیوں گھروں میں با جماعت نماز حکومت کے مزے لوٹنے والوں کے لیے ناقابل برداشت ہے؟ ایران کے بڑے شہروں کرمان، اصفہان، تہران اور کاشان میں سنی برادری کو کیوں باجماعت نماز ادائیگی کی اجازت نہیں؟ ہم اس پر خاموش نہیں رہیں گے اور یہ حرکت اہل سنت ایران کیلیے ناقابل قبول ہے۔
انہون نے کہا جو حکومت اتحاد بین المسلمین کا دعویدار ہے اس کیلیے مناسب نہیں مسلمانوں کے سب سے بڑے مسلک اہل سنت والجماعت کے پیروکاروں کو ایران میں تنگ کرے اور ان کے بنیادی حقوق نظر انداز کرے۔ امید ہے حکام ہمیں دوسرے درجے کے شہری شمار نہ کریں۔ ایران ہمارا وطن ہے، ہم ایران کے وارث و مالک ہیں، امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ تایباد میں بھی عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔
ان کے منتخب امام وخطیب کی برطرفی سے تایبادی عوام کے علاوہ جس نے یہ خبر سنی ہے وہ پریشان ہے۔
آپ کی رائے