مصر کی کابینہ برطرف، مظاہرے بدستور جاری

مصر کی کابینہ برطرف، مظاہرے بدستور جاری
cairo-2قاہرہ(بى بى سى) مصر کے مختلف شہروں میں مظاہروں کے بعد صدر حسنی مبارک نے کابینہ برطرف کر دی ہے۔ مظاہروں میں کم از کم چھبیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سنیچر کو نئی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا۔

انہوں نے یہ اعلان سرکاری ٹیلی وژن پر اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں جمہوری اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرا رہے ہیں۔
مصر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے متعلق ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ مصر کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے صدر حسنی مبارک کے قوم سے خطاب کے بعد ان سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں اصلاحات لانے کے عوام سے وعدے کو ٹھوس معنی دیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مصری انتظامیہ مصری عوام کے خلاف تشدد کا راستہ نہ اپنائے۔ انہوں نے مظاہرین سے بھی کہا کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں۔
صدر مبارک نے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر مصر کو، جو کہ خطے کا ایک اہم ملک ہے، غیر مستحکم نہیں ہونے دیں گے اور جلد ہی سلامتی کے حوالے سے نئی پابندیاں لگائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ترقی صرف قومی ڈائیلاگ سے ہو گی۔ انہوں نے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ اپنی املاک کی حفاظت کریں اور سرکاری عمارتیں نہ جلائیں۔.
انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں حکومت کی طرف سے دی گئی آزادئ صحافت اور دیگر آزادیاں نہ ہوتیں تو کوئی مظاہرے نہ کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آزادی اور انتشار کو ایک ہلکی سی لکیر ہی جدا کرتی ہے۔
مصر کے مختلف شہروں میں صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں کے بعد تمام بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے لیکن ہزاروں مظاہرین کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ مظاہرین نے حکمران جماعت کے صدر دفتر کو آگ لگا دی ہے اور سرکاری نشریاتی ادارے اور وزارتِ خارجہ سمیت کئی اہم عمارتوں کا محاصرہ کر لیا ہے۔
دارالحکومت قاہرہ کی سڑکوں پر فوج ٹرک موجود ہیں جبکہ ساحلی شہر سویز میں بھی فوج طلب کر لی گئی ہے جہاں گولی چلائے جانے کی اطلاع ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی سروسز معطل کر دی گئی ہیں۔ سکندریہ میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔
طبی ذرائع کے مطابق جمعہ کو سویز میں کم از کم تیرہ افراد جبکہ قاہرہ میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اگرچہ قاہرہ میں کرفیو نافذ ہے لیکن وہاں سے ٹیلی وژن کے ذریعے براہِ راست نظر آنے والی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کا ہجوم سڑکوں پر موجود ہے۔
بی بی سی عربی کے ایک نامہ نگار نے قاہرہ سے بتایا ہے کہ کرفیو کے باوجود مظاہرین مصری ریڈیو اور ٹی وی کی عمارتوں کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں اور اندر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عمارت کی حفاظت فوج کر رہی ہے لیکن فوج اور مظاہرین میں جھڑپ نہیں ہوئی۔
مصر میں چار روز قبل شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں جمعہ کو مظاہروں میں بہت زیادہ شدت آ گئی اور اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھبیس بتائی جاتی ہے۔ قاہرہ اور مصر کے کئی دوسرے شہروں کی سڑکوں پر افراتفری کے مناظر دیکھے گئے۔ پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
ساحلی شہر سویز میں مشتعل مظاہرین نے بکتر بند گاڑیوں پر حملہ کر دیا، ایک پولیس سٹیشن پر ہلہ بول دیا، وہاں سے ہتھیار قبضے میں لے لیے اور تھانے کو نذرِ آتش کر دیا۔
حکام نے موبائل فون آپریٹرز اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ تا حکمِ ثانی اپنی خدمات معطل کر دیں۔
مصر میں احتجاج کا آغاز تیونس میں دو ہفتے قبل ہونے والے ایسے ہی مظاہروں کے بعد ہوا ہے جن کے نتیجے میں تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔
مصر کے شہر سکندریہ سے بھی تشدد کے واقعات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جبکہ سویز میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان زبردست آنکھ مچولی جاری ہے۔
گزشتہ رات اسلامی اپوزیشن تحریک اخوان المسلمین کے اراکین کے خلاف بھی کارروائیاں جاری رہیں کیونکہ اس نے جمعہ کے روز ہونے والے مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل حکومت مخالف مظاہرین کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے بعد سکیورٹی فورسز کو انتہائی چوکس کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب مصری حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرت کے لیے تیار ہے تاہم مظاہرین سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مصر میں اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے مصر میں حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت اخوان المسلمین کی جانب سے جمعہ کو کیے جانے والے مظاہروں کی حمایت کے اعلان کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔
حکومت مخالف مظاہرین کی جانب سے دیگر افراد کو انٹرنیٹ سائٹس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ نمازِجمعہ کے بعد ان مظاہروں میں شریک ہوں۔ منتظمین دیگر افراد پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اِن مظاہروں میں پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوں۔
قاہرہ میں انٹرنیٹ استعال کرنے والے صارف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تھری جی‘ اور ایس ایم ایس پیغامات وصول نہیں ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کو قاہرہ میں صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے کے شرکاء اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکہ کا ردِ عمل
واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار زبیر احمد کے مطابق امریکی انتظامیہ نے مصر کی حکومت سے کہا ہے کی وہ مظاہرین کی خواہشات کا احترام کرے اور سیاسی سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے مطالبے پر غور کرے۔ امریکی صدر براک اوباما نے صدر حسنی مبارک سے فون پر لمبی بات کرتے ہوئے حکومت کو تحمل کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ایک بیان میں مصر میں سیاسی بے چینی پر سخت تشویش ظاہر کی۔
مصر کے مختلف شہروں میں صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں پر امریکی نظریہ یہ ہے کہ ’مصری عوام کے جائز مطالبے پر مصری حکومت فوراً دھیان دے اور مظاہرین کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔‘
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس نے بھی کہا ہے کہ ’ٹھوس اصلاحات کے ذریعے صورت حال کا حل نکالنا چاہئیے۔ یہی مصر کے عوام چاہتے ہیں اور ان اصلاحات کے وہ حقدار بھی ہیں۔‘
امریکی انتظامیہ نے مصری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کے انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی سروسز جو معطل کر دی گئی ہیں انھیں فوراً بحال کیا جائے۔
نامہ نگار کے مطابق اگرچہ مصر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا ایک مضبوط اتحادی ہے لیکن امریکی انتظامیہ کا مصری حکومت کو پیغام صاف ہے کہ عوام کی امنگوں کا احترام کیا جائے اوراصلاحات پر فوری طور پر عمل کیا جائے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہِیلری کلنٹن نے کہا ’ ہم تمام پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ محتاط رہیں اور تشدد سے گریز کریں۔ اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی سمیت ہم مصری عوام کے تمام بنیادی حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔ مصری حکام سے ہماری اپیل ہے کہ پرامن مظاہروں کو مت روکیں اور سماجی ویب سائٹس سمیت ذرائع ابلاغ میں رکاوٹ مت ڈالیں۔‘
منگل کو شروع ہونے والے ان مظاہروں میں اب تک ایک ہزار سے زیادہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ مصر میں احتجاج کا آغاز تیونس میں دو ہفتے قبل ہونے والے ایسے ہی مظاہروں کے بعد ہوا ہے جن کے نتیجے میں تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں