مصر اور یمن میں حکومت مخالف مظاہرے جاری

مصر اور یمن میں حکومت مخالف مظاہرے جاری
egyptian2قاہرہ(بى بى سى) مصر اور یمن میں تین عشروں سےاقتدار پر فائز صدر حسنی مبارک اور صدر عبد اللہ صالح کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر میں لوگوں کی بڑی تعداد نے تیسرے روز مظاہرے جاری رکھے۔مصر کی حزب مخالف کے رہنماء اور نوبل انعام یافتہ محمد البرادی جمعرات کو آسٹریا سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔وہ جعمہ کو مظاہروں میں شریک ہو گے۔

ادھر یمن میں بھی لوگوں نے تیس سال سے زیادہ عرصے سے اقتدار پر قابض صدر عبد اللہ صالح کے خلاف مظاہرے جاری رکھے۔ مظاہرین عبد اللہ صالح سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مصر میں حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود مظاہرے تیسرے دن بھی جاری ہیں۔ مصر میں ابتک مظاہروں میں چار افرا ہلاک اور سات سو مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مصر کے حکومت نے مظاہروں کے تیسرے روز کہا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن ’جمہوری معاشروں‘ میں بات چیت کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔
جمعرات کو مظاہرے قاہرہ کے علاوہ سویز، مشالہ اور سکندریہ تک پھیل گئے۔ دن بھر حکومت مخالف مظاہرین اور انہیں روکنے والے پولیس اہلکاروں کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی۔
قاہرہ میں پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ جبکہ سویز کی بندرگاہ پر مظاہرین نے ایک سرکاری عمارت کو نذرِ آتش کر دیا۔
قاہرہ میں صحافیوں کی یونین کے دفتر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین نے صدر حسنی مبارک سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ صدر حسنی مبارک 1981 سے اقتدار میں ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کو قاہرہ میں صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے کے شرکا اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کی ہلاک ہوگئے تھے۔
مصر میں امنِ عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر امریکہ نے زور دیا ہے کہ مصری حکومت ملک میں سیاسی اور معاشی اصلاحات لائے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہِلری کلنٹن نے کہا ’ ہم تمام پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ محتاط رہیں اور تشدد سے گریز کریں۔ اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی سمیت ہم مصری عوام کے تمام عالمگیر حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔
مصری حکام سے ہماری اپیل ہے کہ پرامن مظاہروں کو مت روکیں اور سماجی ویب سائٹس سمیت زرائع ابلاغ میں رکاوٹ مت ڈالیں۔‘
مصری حکومت نے گزشتہ روز مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی اور ان میں شرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود سماجی کارکنوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جمعے کو مساجد اور گرجا گھروں میں اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عرب ملک تیونس میں حال ہی میں آنے والی انقلابی تبدیلی نے مصر کے عوام کی حوصلہ افزائی کی ہے۔۔
قاہرہ میں بی بی سی کے جان لین کے مطابق مصری حکام اس صورتحال سے بالکل اُسی طرح نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے تیونس میں اقتدار سے محروم ہونے والے سابق صدر زین العابدین کی حکومت نے کیا تھا یعنی ایک سیاسی بحران کو سکیورٹی کا بحران سمجھ کر اُس سے نمٹنا۔ مصر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل امر موسیٰ نے تمام عرب ریاستوں کو بروقت سماجی و سیاسی اصلاحات کا مشورہ دیا ہے۔
’عرب دنیا میں مسلسل تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اس بے چینی کی کئی وجوہات ہیں جن میں ناصرف اندرونی بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں۔ میں شرم الشیخ کے اجلاس میں بھی کہہ چکا ہوں کہ میرے خیال میں عرب شہری غصے میں ہیں، مضطرب ہے اور اپنی زندگیوں میں اصلاحات چاہتے ہیں۔‘
مصری حکومت کا الزام ہے کہ کالعدم مسلم تنظیم اخوان المسلمین ان مظاہروں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
مصر میں منگل کو شروع ہونے والے مظاہروں کی کال، انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر دی گئی تھی۔ اسی طرح سماجی رابطوں کی ایک اور ویب سائٹ ٹوئٹر نے ان مظاہروں میں شدت لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بدھ کو اطلاعات ملیں ہیں کہ مصری حکومت نے فیس بُک اور ٹوئٹر، دونوں تک رسائی روک دی ہے، تاہم حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں