حکمراں تیونس کے انقلاب سے سبق سیکھیں

حکمراں تیونس کے انقلاب سے سبق سیکھیں
tunisia_02گزشتہ سال مجھے بزنس کے سلسلے میں تیونس جانے کا اتفاق ہوا۔ ایئر پورٹ پر اترتے ہی میری نظر لاؤنج میں آویزاں صدر زین العابدین کی مسکراتی ہوئی قد آور تصاویر پر پڑی۔ ایئر پورٹ سے لے کر ہوٹل تک پورے راستے میں اسی طرح کی قد آور تصاویر آویزاں تھیں۔ ہوٹل کے استقبالیہ میں ان تصاویر کو دیکھ کر مجھے گمان ہوا کہ شاید زین العابدین عوام میں بہت مقبول ہیں جس پر میں نے وہاں موجود اپنے تیونس نژاد دوست عبدالرحیم سے اس مقبولیت کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے مسکراتے ہوئے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ بعدمیں اس نے مجھے بتایا کہ تیونس ایک پولیس اسٹیٹ ہے اور یہاں ہر دوسرے شخص کا تعلق ”سیکرٹ پولیس“ سے ہے، یہاں صدر اور حکومت کے خلاف کسی قسم کی بات کرنا بہت بڑی مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر ہوٹل کی کھڑکی سے جب میں نے باہر کا نظارہ کیا تو ہوٹل کے سوئمنگ پول میں تیونس کے اشرافیہ طبقے کو خواتین کے ہمراہ سوئمنگ کے لباس میں تیراکی کرتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح جب میں لنچ کیلئے ریسٹورنٹ میں گیا تو وہاں شراب عام تھی اور لبرل طبقہ کھانے سے قبل شراب نوشی میں مصروف تھا
۔صدر زین العابدین تیونس کو لبرل اور سیکولر کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں ہر داڑھی اور حجاب پہننے والے کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سرکاری دفاتراور تعلیمی اداروں میں خواتین کے حجاب پہننے اور مردوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی تھی۔ اگر کوئی عورت اسکارف پہنے اسکولوں، یونیورسٹیوں یا سرکاری اداروں میں آتی تھی تو پولیس پہلے اس کا اسکارف اتارلیتی تھی۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ زین العابدین کی حکومت روزوں پر بھی پابندی عائد کرنے کا سوچ رہی تھی،اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ کے دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم اور اس سے سفارتی تعلقات شروع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی ،اس کے باوجود کہ اسرائیل نے 1986ء میں تیونس پر فضائی حملہ کرکے PLO کے سربراہ یاسر عرفات کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا تھا۔
افسوس یہ سب کچھ ایک عرب ملک میں کیا جارہا تھا۔ شاید یہی دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بیان دیا تھا کہ ”تیونس جیسا لبرل ملک مسلمانوں کیلئے ایک ماڈل ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔“ لنچ کے بعد عبدالرحیم مجھے تیونس کے قدیم اور متوسط علاقے جسے ”مدینہ“ کہا جاتا ہے لے گیا۔ مدینہ میں،میں نے ایک بالکل مختلف دنیا دیکھی، یہاں مجھے غربت اور افلاس نظر آئی، لوگ اپنے روایتی لباس ”جلابوں“ میں ملبوس تھے، خواتین نے اسکارف اور حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ مدینہ میں واقع ایک مسجد سے بے شمار لوگ عصر کی نماز پڑھ کر نکل رہے تھے۔ راستے میں کچھ فقیروں نے غیر ملکی سمجھ کر مجھ سے مدد چاہی۔ مجھے تیونس میں امیر اور غریب، لبرل اور اسلام پسندوں میں اتنا بڑا فرق دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ میں نے عبدالرحیم سے جب اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ تیونس میں یہ فرق بڑھتا جارہا ہے۔ امیروں کا تعلق حکمراں طبقے سے ہے، یہ ماڈرن طبقہ فرانس اور مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہے اور ملکی دولت اور وسائل پر پوری طرح قابض ہے، کرپشن اور بدعنوانی زوروں پر ہے۔ غریب طبقہ بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جارہا ہے۔دوسری طرف اسلام پسند لوگ حکومت کے ظلم اور اسلام مخالف پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں اور لوگوں میں حکمرانوں کے خلاف ایک لاوا جنم لے رہا ہے جو کسی وقت بھی ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرلے گا۔ عبدالرحیم نے کہا کہ آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ اس ملک میں ایک دن انقلاب آئے گا۔
دو دن تیونس میں گزارنے کے بعد جب میں وطن واپس آیا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ فرق اور ناانصافی کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ انقلاب اتنی جلد رونما ہوگا۔
انقلاب کے بعد میں نے ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ عوام صدر زین العابدین کی وہ تصاویر جنہیں میں نے ایئر پورٹ سے لے کر ہوٹل تک راستے بھر میں آویزاں دیکھا تھا، کو اتارکراپنے پیروں تلے روند کر نذر آتش کررہے تھے۔ زین العابدین ملک سے فرار ہوچکا تھا لیکن عوام کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔
افسوس کہ ایسا شخص جو عرب ملک کو لبرل اور سیکولر کہلوانا فخر محسوس کرتا تھا اور جس کی پالیسیاں اسلام مخالف تھیں اسے کسی لبرل اور سیکولر دوست ملک نے پناہ نہیں دی ۔حکمران طبقے کا زیادہ زور اپنی ذاتی تشہیر اور پبلسٹی پر ہوتا ہے۔ وہ اپنی قد آور تصاویر، خوش مقدمی بینر دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی کارکردگی ہی ان کی مقبولیت کو جانچنے کا درست ذریعہ ہوتی ہے۔ جو حکمران عوام کے جذبات اور احساسات سے آگاہ ہوتے ہیں، غیر ملکی حمایت کے بجائے عوامی حمایت و تائید پر یقین رکھتے ہیں، وہی حکمران عوامی لیڈر کہلانے کے مستحق ہیں اور ایسے ہی حکمران عوام کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا،قائداعظم محمد علی جناح اس کی مثالیں ہیں۔
تیونس کے انقلاب کو خطے کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جارہا ہے اور لوگ تجزیہ کررہے ہیں کہ الجیریا، اردن اور مصر میں بھی اسی طرح کے حالات پیش آسکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی تیونس کا انقلاب زیر بحث ہے کیونکہ پاکستان اور تیونس کے کچھ حالات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ حکومتی ایماء پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے، حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ کیا عوام یہ اضافہ برداشت کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف حکمرانوں کی کرپشن اور شاہانہ اخراجات کے قصے کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔
ان حالات میں حکومت اربوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں، نئے پارلیمنٹ لاجز اور لگژری اپارٹمنٹس بنانے کے منصوبوں کا اعلان کررہی ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اگر ایک بار عوام کو سڑکوں پر لے آئی تو کوئی ان کی طاقت کو دبا نہیں سکے گا۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ تیونس کے انقلاب سے سبق سیکھیں۔

اشتیاق بیگ
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں