عراق‘افغانستان اور گوانتا موبے میں190 قیدیوں کو بلا وجہ ہلاک کیا گیا

عراق‘افغانستان اور گوانتا موبے میں190 قیدیوں کو بلا وجہ ہلاک کیا گیا
guantanamo-bayواشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک )امریکا میں شہری حقوق کی تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین کی طرف سے حاصل کردہ سرکاری دستاویزات سے عراق، افغانستان اور خلیج گوانتاناموبے میں قیدیوں کو بلاوجہ ہلاک کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے مزید واقعات سامنے آئے ہیں۔

امریکا میں شہری حقوق کی تنظیم نے گزشتہ جمعہ کو ہزاروں ایسی سرکاری دستاویزات جاری کی ہیں جن میں190 قیدیوں کو حراست کے دوران بلا وجہ ہلاک کیے جانے کے واقعات کی تفصیلات درج ہیں۔
امریکی سول لبرٹیز کی تنظیم نے یہ سرکاری دستاویزات امریکا کی فوج سے اطلاعات کی آزادی کے قانون کے تحت دائر کردہ ایک درخواست کے ذریعے حاصل کی ہیں۔
ان فوجی دستاویزات میں ہلاک شدہ قیدیوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور فوج کی طرف سے کرائی گئی تحقیقات کی تفصیلات شامل ہیں جن میں 25 سے 30 ایسے واقعات بھی ہیں جن کے بارے میں سول لبرٹیز کو یقین ہے کہ وہ بلا جواز قتل ہیں۔شہری حقوق کی تنظیم کے ان دستاویزات میں درج واقعات اس سے پہلے سامنے نہیں آئے۔ان میں ایک ایسا واقعہ بھی شامل ہے جس میں ایک امریکی فوجی نی جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک زیر حراست زخمی پر پہلے تشدد کیا پھر اس کے سر میں گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ اس سارجنٹ نے قیدی کو قتل کرنے کے بعد وہاں پر موجود دوسرے فوجیوں کو اس بارے میں جھوٹ بولنے کا حکم دیا۔
ان دستاویزات میں درج ایک اور واقعہ میں ایک امریکی فوجی نے ایک غیر مسلح افغان کو قتل کیا لیکن بعد میں فوجی عدالت میں چلائے جانے والے مقدمے میں اس فوجی کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا۔
شہری حقوق کی تنظیم کے مطابق ان تازہ سرکاری دستاویزات نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے جبکہ ان سے ایک بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ افغانستان، عراق اور گوانتاناموبے میں قیدیوں پر وسیع پیمانے پر تشدد اور انہیں ہلاک کرنے کے واقعات پر کسی بھی اعلیٰ فوجی افسر کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
امریکی فوج ان الزامات سے انکار کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایات کو وہ بڑی سنجیدگی سے لیتی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل تانیا براڈ شر کے مطابق امریکی فوج کے پالیسی کے تحت کسی قیدی کی زیر حراست ہلاکت کی رپورٹ کو فوری طور پر تحقیقاتی ایجنسی کو بھیجا جاتا ہے چاہے اس ہلاکت کے کوئی بھی عوامل کیوں نہ ہوں۔
یہ سارے واقعات انفرادی نوعیت کے ہیں اور ان سے ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکی قید خانوں میں کسی پالیسی یا منظم طریقہ کار سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں