الجزائر (العربيہ) الجزائر کے دارالحکومت میں اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود جمہوریت کے حق میں ریلی نکالی ہے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعت ریلی برائے ثقافت اور جمہوریت آرسی ڈی کے سربراہ سعید سعدی کا کہنا ہے کہ ”پولیس کے لاٹھی چارج سے متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں اور متعدد کو گرفتار کرلیا گیا ہے”۔انہوں نے بتایا کہ گرفتارشدگان میں جماعت کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ عثمان امزوزبھی شامل ہیں۔
حکومت نے ریلی سے قبل ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ مظاہرے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار نہ کریں۔الجزائر میں بھی پڑوسی ملک تیونس کی طرح پُرتشدد احتجاجی ہنگامے پھوٹ پڑنے کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
الجزائر کی سرکاری نیوزایجنسی اے پی ایس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ”شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ عقل مندی کا مظاہرہ کریں، چوکنا رہیں اورپُرامن صورت حال کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کسی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دیں”۔
دارالحکومت الجزائر میں قریباً تین سو افراد نے پابندی کے باوجود مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دسیوں پولیس اہلکاروں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔حکام نے آرسی ڈی کو گذشتہ منگل کو بھی احتجاجی ریلی نکالنے سے روک دیا تھا اور حکومت نےاس کے بعد اجتماعات پر پابندی لگادی تھی۔سرکاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ”الجزائرمیں ریلیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی”۔
بیان کے مطابق اپوزیشن نے کسی اجازت کے بغیر مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔واضح رہے کہ الجزائر میں 1992ء سے ہنگامی حالت نافذ ہے اور مظاہروں پر پابندی عاید ہے لیکن الجزائر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کے غیظ وغضب میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں الجزائر میں حکومت مخالف ایک مظاہرے کے دوران سکیورٹی اہلکاروں اور شرکاء کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک اورآٹھ سو سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
الجزائری حکومت نے ان مظاہروں کے فوری بعد تیل،چینی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کردی تھی اورکئی لاکھ ٹن گندم خرید کی تھی تاکہ زرتلافی پر عوام کو بلا تعطل آٹے کی فراہمی جاری رہے۔
الجزائری حکومت کے انتباہ کے باوجود تیزی اوزومیں واقع مولود معمری یونیورسٹی کے طلبہ نے مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔طلبہ قیادت نے ایک بیان میں تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں کے والہانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے شمالی افریقہ کے تمام محب وطنوں کو تحریک ملی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الجزائر میں بھی تیونس کی طرز کے ہنگامے پھوٹ پڑسکتے ہیں کیونکہ شمالی افریقہ میں واقع اس ملک کو بھی تیونس جیسے مسائل کا سامنا ہے۔حکام کے مطابق الجزائر میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ملک کی کل تین کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی میں سے ڈیڑھ کروڑنفوس کی عمریں تیس سال سے کم ہیں اور ان میں سے اکثریت بے روزگار ہے۔
پڑوسی ملک تیونس میں غربت، بے روزگاری اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف چار ہفتے تک پُرتشدد ہنگاموں کے بعد صدر زین العابدین بن علی کو تئیس سال تک برسراقتدار رہنے کے بعد حکومت چھوڑنا پڑی تھی۔ وہ جمعہ 14جنوری کو ملک سے فرار ہوگئے تھے اور انہوں نے اب سعودی عرب میں پناہ لے لی ہے۔
حکومت نے ریلی سے قبل ایک بیان جاری کیا تھا جس میں شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ مظاہرے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار نہ کریں۔الجزائر میں بھی پڑوسی ملک تیونس کی طرح پُرتشدد احتجاجی ہنگامے پھوٹ پڑنے کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
الجزائر کی سرکاری نیوزایجنسی اے پی ایس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ”شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ عقل مندی کا مظاہرہ کریں، چوکنا رہیں اورپُرامن صورت حال کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کسی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دیں”۔
دارالحکومت الجزائر میں قریباً تین سو افراد نے پابندی کے باوجود مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دسیوں پولیس اہلکاروں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔حکام نے آرسی ڈی کو گذشتہ منگل کو بھی احتجاجی ریلی نکالنے سے روک دیا تھا اور حکومت نےاس کے بعد اجتماعات پر پابندی لگادی تھی۔سرکاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ”الجزائرمیں ریلیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی”۔
بیان کے مطابق اپوزیشن نے کسی اجازت کے بغیر مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔واضح رہے کہ الجزائر میں 1992ء سے ہنگامی حالت نافذ ہے اور مظاہروں پر پابندی عاید ہے لیکن الجزائر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کے غیظ وغضب میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں الجزائر میں حکومت مخالف ایک مظاہرے کے دوران سکیورٹی اہلکاروں اور شرکاء کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک اورآٹھ سو سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
الجزائری حکومت نے ان مظاہروں کے فوری بعد تیل،چینی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کردی تھی اورکئی لاکھ ٹن گندم خرید کی تھی تاکہ زرتلافی پر عوام کو بلا تعطل آٹے کی فراہمی جاری رہے۔
الجزائری حکومت کے انتباہ کے باوجود تیزی اوزومیں واقع مولود معمری یونیورسٹی کے طلبہ نے مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔طلبہ قیادت نے ایک بیان میں تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں کے والہانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے شمالی افریقہ کے تمام محب وطنوں کو تحریک ملی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الجزائر میں بھی تیونس کی طرز کے ہنگامے پھوٹ پڑسکتے ہیں کیونکہ شمالی افریقہ میں واقع اس ملک کو بھی تیونس جیسے مسائل کا سامنا ہے۔حکام کے مطابق الجزائر میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ملک کی کل تین کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی میں سے ڈیڑھ کروڑنفوس کی عمریں تیس سال سے کم ہیں اور ان میں سے اکثریت بے روزگار ہے۔
پڑوسی ملک تیونس میں غربت، بے روزگاری اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف چار ہفتے تک پُرتشدد ہنگاموں کے بعد صدر زین العابدین بن علی کو تئیس سال تک برسراقتدار رہنے کے بعد حکومت چھوڑنا پڑی تھی۔ وہ جمعہ 14جنوری کو ملک سے فرار ہوگئے تھے اور انہوں نے اب سعودی عرب میں پناہ لے لی ہے۔
آپ کی رائے