مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ صدر العابدین کی حکومت ختم نہ ہوتی تو کالعدم مذہبی جماعت کا فوری طور پرایسا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کا اعلان کرتی۔ تنظیم کے اس اعلان کو مزید حوصلہ نئے عبوری وزیر اعظم محمد الغنوشی کے اس بیان کے بعد ملا ہے جس میں انہوں نے برملا کہا ہے کہ “راشد الغنوشی کی جماعت نہضہ اسلامی کو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں سیاسی سرگرمیوں کا حق دیا جائے گا اور تنظیم پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی”۔
العربیہ کی نامہ نگار زینہ یازجی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم الغنوشی کا کہنا تھا کہ ” وہ نہضہ اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے آئندہ کے پارلیمانی انتخابات میں راستہ کھلا چھوڑیں گے۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ ملک میں کس طرف کی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔آیا عوام کا انتخاب لبرل جماعتیں ہیں یا اسلام پسند ، اس کا فیصلہ عوام کریں گے”۔
یہ امرقابل ذکر رہے کہ راشد الغنوشی گذشتہ 22 سال سے برطانیا میں جلا وطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں۔سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی مذہبی جماعتوں پر عائد سخت پابندیوں کا نشانہ مسٹر الغنوشی کی جماعت بھی بنی جو کہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔تیونسی صدر کی جانب سے عائد پابندیوں کے باعث راشد الغنوشی کو عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
تحریک نہضہ اسلامی کیا ہے؟
تیونس میں “نہضہ اسلامی” کے نام سے تنظیم کا قیام سنہ 60ء کی دہائی میں اس وقت عمل میں لایا گیا جب تیونس کے اسلام پسند طلباء نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک تنظیم کے قیام کی بنیاد رکھی۔ حال ہی میں سبکدوش صدر زین العابدین کے دور سے قبل تنظیم کا نام “الاتجاہ الاسلامی” تھا تاہم صدر العابدین کی جانب سے پابندیوں کے بعد تنظیم کی قیادت نے نہضہ اسلامی کے نام سے دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
اوائل میں یہ صرف ایک طلبہ تنظیم تھی جو مصر کی اخوان المسلمون سے متاثر ہوئی۔ اسی تاثیر کے نتیجے میں “الاتجاہ الاسلامی” کو اخوان المسلمون کے بین الاقوامی شاخ میں ضم بھی کیا گیا۔ تیونس میں اسلامی سیاسی جماعتوں کے امور کے ماہر اور ڈیموکریٹک ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہ نما محمد القومانی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نہضہ اسلامی خود کو آئینی دائرے میں لانے کے لیے طویل جنگ لڑتی رہی ہے، کبھی اس کی قیادت نے تنظیم کے جوہری افکار و نظریات میں تبدیلی کی اور کہیں نام تبدیل کر کے اس کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ شروع میں تنظیم سے وابستہ قیادت اخوان المسلمون سے متاثر تھی، تاہم سنہ 1979ء میں ایران میں امام خمینی کے انقلاب نے بھی تنظیم کے افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ایک دوسرے سوال پر القومانی نے کہا کہ نہضہ اسلامی کو تیونس میں سیاسی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز پر کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایک جانب تنظیم کو خود عوام میں متعارف کرانے کے لیے نئے سرے سے مہم چلانا ہوگی دوسری جانب اپنے مد مقابل سلفی مذہبی گروپ سے بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ تنظیم کے لیے ایک مشکل ملک میں موجود لبرل طبقہ اور سابق صدر العابدین کے حامی بھی ہیں۔ وہ طبقہ بھی اپنے تئیں نہضہ کی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنے گا۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریک نہضہ کی قیادت نے میڈیا کی حدتک خود کو فعال کرنا شروع کر دیا ہے۔ تنظیم کے جلا وطن لیڈر راشد الغنوشی سمیت چوٹی کے دیگر رہ نما یہ تاثر دے چکے ہیں کہ وہ ملک میں قانون ، شہری آزادیوں اور جمہوریت کا احترام کریں گے اور انتخابات میں جمہور ی طریقے سے کامیاب ہونے والے گروپوں کی حمایت کی جائے گی۔
راشد الغنوشی پر ایک نظر
نہضہ اسلامی کے سربراہ الشیخ راشد الغنوشی سنہ 1941ء میں تیونس کے جنوب میں قصبہ حامہ قابس میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مثیلبہ میں ایک دینی درسگاہ میں داخل ہوئے جہاں سے سند فراغت کے بعد انہوں نے دارالحکومت تیونس میں مدرسہ خلدونیہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ سنہ 1964ء میں فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دمشق چلے گئے جہاں سنہ 1968ء میں انہوں نے فلسفے میں میڈل حاصل کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے کچھ عرصہ فرانس میں گذارا اور سنہ 1970ء میں دوبارہ وطن واپس آکر مختلف درسگاہوں میں تدریسی ذمہ داریاں سنھبالیں۔
سنہ 1981ء میں عبدالفتاح مورو کے ساتھ مل کر “تحریک اتجاہ الاسلامی” کے نام سے تنظیم قائم کی۔ جماعت کی تاسیس کے بعد اسے آئینی شکل دینے اور حکومتی منظوری کے لیے وزیر داخلہ کو درخواست دی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب دینے سے انکار کر دیا۔
جولائی سنہ 1981ء میں الغنوشی کو دیگر ساتھیوں سمیت ایک غیر قانونی تنظیم کے قیام کی پاداش میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم حراست کے تین سال بعد صدر الغزالی کی سفارش پرانہیں رہا کردیا گیا۔ اگست 1987ء کو انہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے دارالحکومت تیونس میں چار ہوٹلوں کو بم دھماکوں سے اڑانے کی کوشش کی تھی۔
سنہ 1988ء میں صدر زین العابدین کی سفارش پر انہیں اس شرط پر رہا کیا گیا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت ملک چھوڑ دے گی۔ تاہم ان کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں عدالت میں مقدمہ چلتا رہا۔ پارٹی کی بیشتر قیادت تیونس سے جلاوطن ہو کر مختلف ممالک میں چلی گئی اور راشد الغنوشی برطانیا چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں تیونس کی ایک عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا کا بھی حکم سنا رکھا ہے۔
آپ کی رائے