سوڈان کی تقسیم‘ امریکا اور اسرائیل کامیاب

سوڈان کی تقسیم‘ امریکا اور اسرائیل کامیاب
sudan-enfesalپاکستان نے جوبائیڈن کے حالیہ دورے کے موقع پر افغانستان کے حوالے سے ”گریٹ گیم“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح 19ویں صدی کے آغاز میں روس اور برطانیہ کے درمیان مختلف علاقوں پر قبضے اور محاذ آرائی کے لیے پہلی بار استعمال کی گئی تھی۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی جگہ امریکا نے لے لی اور وہ زیادہ ہوشیاری سے یہ کھیل کھیل رہا ہے۔ 1898ءمیں سوویت یونین کی افغانستان اور اس کے نتیجے میں وسط ایشیا سے پسپائی کے بعد امریکا کو کھلا میدان مل گیا۔ لیکن یہ گریٹ گیم صرف افغانستان میں نہیں ہورہا بلکہ امریکا یہ کھیل کئی علاقوں میں کھیل رہا ہے اور یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ اس کھیل کے میدان مسلم علاقوں ہی میں چنے گئے ہیں۔
ایسا ہی ایک کھیل افریقہ کے سب سے بڑے مسلم ملک سوڈان میں برسوں سے کھیلا جارہا ہے اور اب اس کے بدترین نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ اس کے لیے ریفرنڈم کا نام استعمال کیا گیا ہے جو 9 جنوری سے شروع ہوگیا ہے اور 16 جنوری تک جاری رہے گا۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کرنے کے لیے نکالا گیا۔

سوڈان کی تقسیم کا فیصلہ بہت پہلے سے ہوچکا ہے اور اب تو آخری کیلیں ٹھونکی جارہی ہیں۔ بظاہر تو ریفرنڈم کے نام پر عوام سے استصواب رائے کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے باوجود یہ ریفرنڈم اور استصواب رائے آج تک کشمیر میں نہیں ہوسکا اور بھارت نے گزشتہ 63 برس سے کشمیر کے بڑے علاقے پر جابرانہ اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور اس پر قابض بھارت امریکا کا نیا دوست ہے۔ پہلے وہ سوویت یونین کا اتحادی تھا لیکن بظاہر ایک دوسرے کی دشمن یہ عالمی طاقتیں مسلمانوں کے معاملہ میں ایک دوسرے سے متعلق اور درپردہ مددگار تھیں۔
بعض لوگ اس بات پر ہنستے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہر سازش میں یہودی ہاتھ تلاش کرلیا جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو حقائق کو سمجھنا نہیں چاہتے یا عالمی سازشی گروہوں سے خوف زدہ ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ خود ہماری صفوں میں صہیونی ایجنٹ چھپے ہوئے ہیں لیکن ان کے بارے میں کیا کہا جائے جو اٹھتے‘ بیٹھتے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم پر ایسے حکمران بھی مسلط رہے جن کے لیے اسرائیلی صدر رات کو دعا کرکے سوتا تھا، جیوش کانگریس کا صدر ان کا ذاتی دوست تھا اور وہ یہودیوں اور مسلمانوں میں ”مشترکات“ تلاش کرتے تھے۔ کبھی قرآن میں تلاش کرتے تو یہ حکم مل جاتا کہ وہ کبھی بھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے۔ لیکن قرآن کو ہاتھ لگانے کی کڑی شرائط ہیں۔ مگر کیا پرویز مشرف اکیلے ہیں؟
سوڈان کی تقسیم میں یہودی سازش ڈھکی چھپی نہیں اپنے منہ سے بول رہی ہے۔ امور خارجہ کے ماہر عبدالغفار عزیز نے سوڈان کے خلاف صہیونی عزائم کے عنوان سے اپنے ایک تحقیقاتی مضمون میں لکھا ہے کہ ”اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر آنی ڈنحٹر نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارا ہدف سوڈان کے حصے بخرے کرنا اور وہاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائے رکھنا ہے کیونکہ سوڈان اپنی وسیع و عریض سرزمین، بے تحاشہ معدنی و زرعی وسائل اور بڑی آبادی کے ذریعہ ایک طاقت ور علاقائی قوت بن سکتا ہے۔ سوڈان کے ہم سے دور دراز ہونے کے باوجود اسے عالم عرب کی قوت میں اضافہ کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر سوڈان میں استحکام رہا تو وہ اپنے وسائل کے ذریع ایسی قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ سوڈان سے اس کی یہ صلاحیت سلب کرلینا اسرائیلی قومی سلامتی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے“۔ (اسرائیلی اخبارات۔ 10 اکتوبر 2008ء) کیا یہ کھلا اعتراف اس بات کا ثبوت نہیں کہ امریکا اور اس کے حواری کس کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس سے بین الاقوامی جھوٹ بول کر عراق پر حملے کا پس منظر بھی واضح ہوجانا چاہیے۔
اسرائیل کو دور دراز کے افریقی ممالک سے خطرہ ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں اور وہاں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں پھر بھی مستقبل میں اس کے قوت بن جانے کا خوف ہے۔ عراق تو عین عالم عرب میں ہے اور وہ عرب ممالک میں سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ تھا۔ اسرائیل امریکا کی مدد سے عراق کے ایک کارخانے پر فضائی حملہ کرچکا تھا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہاں ایٹمی پروگرام پر کام ہورہا ہے۔ عراق امریکا کے لیے نہیں اسرائیل کے لیے خطرہ تھا۔ چنانچہ پہلے صدام حسین کو اکسا کر کویت پر حملے کی غلطی کروائی گئی جس پر امریکا نے عرب ممالک کو خوف زدہ کرکے عراق پر کئی دن تک بمباری کی اور اس کی قیمت عرب ممالک سے وصول کی جس پر ایک سعودی صحافی نے لکھا کہ ہم اب تک امریکا کا بل ادا کررہے ہیں۔ پھر اس پر تباہ کن ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر اسے تباہ و برباد کردیا گیا۔ یہ سب صرف اسرائیل کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ امریکا نہیں چاہتا کہ اس کے لے پالک کے لیے دور دور تک بھی کوئی خطرہ ہو۔
اسرائیل نے سوڈان کو خطرہ قرار دے دیا تو امریکا کیسے پیچھے رہتا۔ یہی اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی مزید فرماتے ہیں کہ ”1968ءسے 1970ءکے درمیان میں جب مصر اور اسرائیل حالت جنگ میں تھے تو سوڈان نے مصری فضائیہ کی اصل قوت اور بری افواج کے تربیتی مراکز کے لیے اپنی سرزمین فراہم کی تھی۔ اس صورتحال کے اعادہ سے بچنے کے لیے اسرائیلی ذمہ داران کا فرض تھا کہ وہ سوڈان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کریں جن سے نکلنا ممکن نہ رہے۔
ہم نے سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، یوگنڈا، کینیا، اور زائر میں سوڈان مخالف مراکز قائم کیے اور اسرائیل کی تمام حکومتوں نے ان مراکز کو فعال رکھا ہے تاکہ سوڈان عالم افریقہ میں کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہ کرسکے۔ دارفر میں ہماری موجودگی ناگزیر تھی اس کی تجویز وزیراعظم ایریل شیرون نے دی کہ وہاں بحران کھڑا کیا جائے۔ اس پر عمل کیا گیا اور عالمی برادری خاص طور پر امریکا اور یورپ نے ساتھ دیا اور دارفر کے بارے میں ہمارے طے شدہ اہداف و مقاصد اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں“۔ یہ ہے صہیونی منصوبہ جس کو امریکا پایہ ¿ تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ افریقہ ایک پسماندہ براعظم ہے اور سوڈان میں ایک عرصہ تک اسرائیل کے لیے خطرہ بننے کی صلاحیت نہیں لیکن خود پاکستان کے بارے میں کیا خال ہی؟ پاکستان نہ صرف ایک ایٹمی قوت ہے بلکہ حکمرانوں کی نااہلی کے باوجود یہاں کے عوام میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ یہ ملک ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سمندر، دریا، پہاڑ، صحرا کیا کچھ یہاں نہیں ہے۔ بقول اقبال ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“۔ تو کیا یہ اسرائیل کے لیے عراق اور سوڈان سے بڑھ کر خطرہ نہیں ہی؟ ایسی اطلاعات بھی آچکی ہیں کہ اسرائیل نے بھارت کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی تیاری کرلی تھی۔
بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ افغانستان میں بھی اسرائیل کی ایجنسیاں مختلف نقاب اوڑھے ہوئے سرگرم ہیں۔ تو کیا پاکستان کی باری نہیں آسکتی؟ کم از کم امریکا کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ اس کی طرف سے جو دباﺅ بڑھایا جارہا ہے اس کے پیچھے بھی اسرائیلی سلامتی کی فکر کارفرما ہوسکتی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں اور اسرائیل کے خیر خواہ پاکستانیوں کو عراق اور اب سوڈان کے حالات سے سبق لینا چاہیے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اسرائیل کے ایما پر امریکا اور اس کے صلیبی حواری، یورپ وغیرہ، جنوبی سوڈان میں عیسائیوں کی جو علیحدہ ریاست بنوانے جارہے ہیں، وہاں عیسائیوں کی اکثریت نہیں ہے۔ جنوبی سوڈان سات لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط اور اس کی آبادی 80 لاکھ ہے جس میں 18 فیصد مسلمان ہیں اور عیسائی صرف 17 فیصد ہیں۔ باقی بت پرست ہیں۔ یعنی وہاں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زیادہ ہے۔ لیکن صلیبی طاقتوں کو صرف سوڈان کی تقسیم سے غرض ہے۔ جنوبی سوڈان تیل سمیت معدنیات کی دولت سے مالا مال ہی، تیل کے حصول کے لیے ایک عرصہ سے بڑی بڑی کمپنیوں میں مقابلہ جاری ہے۔ تیل کے علاوہ اس خطہ میں سونا، چاندی، سلیکون، جپسم اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر ہیں۔ لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ جنوبی سوڈان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ اگر یہ آزاد ہوگیا تو تیل برآمد کرنے کے لیے اسے شمالی سوڈان سے گزر کر بحیرہ احمر کے ساحل تک پائپ لائن کے ذریعہ تیل پہنچانا ہوگا۔ تیل صاف کرنے کے کارخانے بھی شمالی سوڈان میں ہیں۔ شمالی سوڈان سے گزرنے والی تیل کی پائپ لائن خطرے میں رہے گی لیکن جہاں امریکا ہو وہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ ایران سے پاکستان آنے والی گیس پائپ لائن خطرے میں پڑ سکتی ہی، ترکمانستان سے قندھار سے گزر کر آ نے والی پائپ لائن نہیں۔
سوڈان کا مسئلہ ہے کیا اور اس میں صدر عمر البشیر کا کتنا قصور ہی؟ سوڈان میں اسلام 31 ہجری میں عبداللہ ابن ابی سارہ کے ذریعہ پہنچا۔ انہیں حضرت عثمانؓ نے مصر کا گورنر بنا کر بھیجا تھا اور سوڈان اور مصر ایک ہی صوبہ بنا دیے گئے۔ یہ بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ہے اور 9افریقی ممالک اس کے ہمسایہ ہیں۔ 1898ءتک یہ مصر کا حصہ تھا۔ برطانیہ نے مصر پر حملہ کرکے سوڈان پر بھی اپنی عمل داری قائم کردی۔ 1956ءمیں جب برطانیہ نے مصر سے فوجیں واپس بلائیں تو سوڈان کو آزادی دینے کے نام پر مصر سے الگ کردیا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اسے قبول بھی کرلیا۔ یہ دور جدید میں مسلمانوں کی سرزمین کو تقسیم کرنے کا پہلا مجرمانہ فعل تھا اور پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔
شمالی اور جنوبی سوڈان کو الگ کرنے کا منصوبہ برطانیہ نے 1922ءمیں بنالیا تھا۔ اس نے جنوبی علاقے کے مقامی لوگوں پر مشتمل ایک فوج قائم کی جس کی قیادت برطانوی افسروں کے پاس تھی۔ یعنی تقسیم کی یہ سازش بہت پرانی ہے جس کے تحت سوڈان کو عرب مسلم علاقے اور عیسائی و بت پرست علاقے میں بانٹنا تھا۔ بعد میں امریکا نے اسی پالیسی کو اختیار کیا اور اب اسرائیل کے تعاون سے اس پر عمل ہورہا ہے۔ برطانیہ نے سوڈان سے نکلنے سے پہلے 1955ءمیں شمالی علاقوں میں ایک بغاوت کروائی اور اپنے ایجنٹوں کو وہاں کی حکومت میں شامل کروادیا تاکہ اس کے ایجنٹ سوڈان میں استحکام نہ ہونے دیں اور کبھی مقامی حکومت، کبھی خود مختاری اور کبھی آزادی یا وفاقی جمہوریت کے نام پر تقسیم کی پالیسی کو آگے بڑھائیں۔
استعمار کے ایجنٹوں کی کارستانی اور تقسیم کی سازشوں کا پاکستان میں بھی مشاہدہ اور مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں بھی استعمار کے ایجنٹ شروع ہی سے حکومت اور فوج میں شامل کردیے گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی خطرات منڈلارہے ہیں۔ برطانیہ نے جس طرح جاتے جاتے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے حوالے سے مستقل تصادم کا بیچ بویا اسی طرح اس نے جنوبی سوڈان میں علیحدگی کا بیچ بویا اور پھر امریکا و مغرب نے اس بیج کی آبیاری کی۔ اب یہ بیج کانٹوں بھرا درخت بن چکا ہے۔
سوڈان کے ایک دانشور عثمان ابراہیم نے 18 جولائی 2010ءکو بیروت میں ایک بین الاقوامی میڈیا کانفرنس میں سوڈان کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا تھا جس کے مطابق سوڈان میں 1969ءکی فوجی بغاوت کے نتیجے میں جعفر التمیری کے ذریعہ امریکا کو سوڈان میں اثرو رسوخ حاصل ہوا۔ اس وقت سے امریکا نے فوج پر اپنے اثرات کو بڑھایا اور برطانوی اثر و رسوخ کمزور کرنے کے لیے کام کیا۔ جنوب میں جان گیرنگ JOHN GERANG کی قیادت میں باغی تحریک کی مدد کی تاکہ جنوب کی علیحدگی کا منصوبہ مکمل کیا جائے۔ پھر کئی سال کی افراتفری اور بحرانوں کی سنگینی میں اضافے کے نتیجے میں امریکا 1989ءمیں فوجی بغاوت کے ذریعہ عمر البشیر کو اقتدار میں لایا اور شمال و جنوب میں مذاکرات کے عمل کو تیز کیا۔ امریکا نے اس خطہ میں برطانیہ اور یورپ کو قدم جمانے سے باز رکھا۔ پھر سوڈان کی حکومت اور پیپلز لبریشن موومنٹ کے درمیان مذاکرات کرائے گئے جن کے نتیجے میں عمر البشیر کی حکومت نے باغی تحریک کو تسلیم کرلیا اور مسئلہ کے حل کے لیے امریکا کے طریق کار کو قبول کرلیا گیا۔ 20 جولائی 2003ءکو سوڈان کی حکومت نے مشاکوز (MISHAKOS) اعلامیہ پر دستخط کردیے جو جنوبی سوڈان کو ملک سے الگ کرنے کا سب سے خطرناک قدم تھا۔ یہ اعلامیہ برسوں کی سازش کی کامیابی کا نتیجہ تھا۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی مداخلت کی شرط کو تسلیم کرتا ہے اور معاہدے کی شقوں پر عمل کے لیے ایک مخصوص وقت کا تعین کرتا ہے تاکہ تقسیم کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے۔
اپریل 2003 ءمیں سوڈان کی حکومت اور باغی تحریک نے ایک فوجی سیکورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت تین مختلف فوجیں بنائی جانی تھیں یعنی حکومتی فوج، باغی فوج اور مشترکہ فوج۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ تقسیم کے عمل کو شروع کرنے کے لیے ابتدائی انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھی بات چیت شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں 7جنوری 2004ءکو ایک کنونشن ہوا جس میں تیل اور دوسرے مالیاتی وسائل کی تقسیم اور دو بینکوں کے قیام پر بات کی گئی، ایک بینک حکومت کا دوسرا باغیوں کا۔ 27 مئی 2004ءکو حکومت اور جنوب کے باغیوں کے درمیان تین معاہدوں پر دستخط ہوئے جن کا تعلق آپس میں قوانین، ان پر عمل کرانے والی اتھارٹی سے تھا۔ یعنی مرکز، جنوب اور تین متنازعہ علاقوں ابئی (ABYEI) جنوبی دریائے نیل اور نوبا ہائیٹس (NOUBA HEIGHTS) کے بارے میں ایک اتھارٹی قوانین پر عمل کرائے گی۔ اس معاہدے کے تحت ABYEI کے علاقے کو خود مختاری دیدی گئی۔ اب وہاں بھی ریفرنڈم ہوگا کہ کیا یہ علاقہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا جنوب کے ساتھ۔ 2009ءمیں سوڈان کے حکمرانوں نے پیپلز موومنٹ کے ساتھ نواشا (NEVASHA) معاہدے پر دستخط کیے یہ معاہدہ امریکا نے تیار کرایا تھا جو جنوب کی علیحدگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت جنوبی سوڈان کو یہ حق دے دیا گیا کہ وہ 2011 ءمیں حق خودارادیت کے لیے ریفرنڈم کرواسکے گا۔ اور یوں ایک مسلم ملک کے ایک علاقے کو علیحدگی کا حق دے دیا گیا اور اس بات کا اختیار بھی کہ کفار کو جنوبی علاقہ اور وہاں آباد مسلمانوں پر مکمل اختیار حاصل ہوگا۔
قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ ”اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز اختیار نہ دے گا“۔ سوال یہ ہے کہ سوڈان کی تقسیم میں عمر البشیر کا کیا کردار ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے مطابق تو عمر البشیر نے جولائی 2003ءہی میں سوڈان کی تقسیم سے اتفاق کرلیا تھا اور پھر اس پر قدم بقدم جو عمل ہوتا رہا اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ 2009ءہی میں نواشا معاہدے کے تحت جنوبی سوڈان کو علیحدگی کا حق تفویض کردیا گیا اور 9 جنوری سے ریفرنڈم کے ذریعہ یہ حق حاصل کیا جارہا ہے۔ کیا اس پورے عرصہ میں عمر البشیر نے بیانات دینے کے علاوہ بھی کچھ کیا؟ اور جہاں تک بیانات کا تعلق ہے تو یہ بھی پڑھ لیجیے۔ عمر البشیر نے جرمن میگزین اسپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”ہم اس تاریخی واقعہ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ جنوب کی علیحدگی صرف لوگوں کے قانونی نمائندوں کے ذریعہ ممکن تھی“۔ یہ انٹرویو مشرق الاوسط نے بھی 24 مارچ 2010ءکو شائع کیا۔ یہی بات امریکی ساختہ نواشا معاہدے میں کہی گئی ہے۔
امریکا کے سوڈان میں خصوصی نمائندے اسکاٹ گریٹن SCOTT GRATION نے رائٹرز کو 26 مارچ 2010ءکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ”امریکا کی خواہش ہے کہ اگلے ماہ سوڈان میں انتخابات کا انعقاد ہو اور خانہ جنگی نہ ہو بلکہ شہری سطح پر علیحدگی ہو۔ عمرالبشیر نے 20 جنوری 2010ءکو اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا ”ہم وہ پہلے لوگ ہوں گے جو جنوب کی ریاست کو تسلیم کرلیں گے اگر انہوں نے علیحدگی اختیار کی“۔ 11 اور 15 اپریل کو انتخابات ہوئے جن کا مقصد شمال اور جنوب کی علیحدگی کو قانونی جواز فراہم کرنا تھا۔ عمر البشیر نے جنوبی سوڈا ن کو تسلیم کرنے کی جو بات کہی بالکل ایسے ہی الفاظ بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں کہے تھے لیکن وہ چانکیہ سیاست کے استاد تھی، ریفرنڈم کو چالاکی سے ٹالتے رہے۔ عمر البشیر صرف اپنا اقتدار بچانے میں لگے رہی، جس کے بچنے کے امکانات کم ہیں۔ وہ مغرب جس کا انہوں نے ساتھ دیا ان پر خانہ جنگی کا الزام لگاتا ہے اور عالمی عدالت جرائم 4 مارچ 2009ءکو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔ وہ سوڈان سے باہر نہیں نکل سکتے اور سوڈان میں ان کا کام پورا ہوچکا ہے۔

بشکریہ “جسارت”
اطہر ہاشمی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں