دور جدید کے چنگیز و ہلاکو

دور جدید کے چنگیز و ہلاکو
iraq-attack-bombجاہل اور وحشی کہلانے والے چنگیز ی لشکروں نے اگر آج سے صدیوں پہلے بغداد کے کتب خانوں کو جلاکر راکھ کردیا تھا تو دنیا میں علم و ہنر کی روشنی پھیلانے کے دعویدار تہذیب جدید کے امام بھی ان سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں۔

عراق پر امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کے قبضے کے فوراً بعد، کتابوں ہی کو نہیں، کتابیں لکھنے اور کتابیں پڑھانے والوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کا ایک نہایت منظم سلسلہ شروع ہوا جو اَب تک جاری ہے۔
پچھلے سات سال میں عراقی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں پروفیسر صاحبان اس کا نشانہ بن چکے ہیں اور ہزاروں خوف زدہ ہوکر بیرون ملک جاچکے ہیں، مگر اس علم دشمن مہم کی تفصیلات بہت کم ہی سامنے آئی ہیں۔
بروسلز ٹریبونل نامی ادارے کی ویب سائٹ پر دنیائے دانش کے ان ڈبو دیے جانے والے ستاروں کی ایک فہرست موجود ہے جسے حتمی تو نہیں کہا جاسکتا مگر اس میں پچھلے سال کے اواخر تک تمام دستیاب معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال یعنی2010ء میں بھی مختلف عراقی یونیورسٹیوں کے گیارہ پروفیسر نامعلوم قاتلوں کا نشانہ بنے۔اس قتل عام کو فرقہ واریت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
عراق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی استعماری طاقتوں کی جانب سے ان واقعات کی روک تھام کی کوئی کوشش کی گئی نہ ان کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کی ۔ عراق کی اصل مقتدر قوتوں کا یہ رویہ اس شبہ کی پوری گنجائش فراہم کرتا ہے کہ علم دشمنی کی یہ مہم ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق بلکہ ممکنہ طور پر ان ہی کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں چل رہی ہے۔
مغرب کے مین اسٹریم میڈیا میں تو اہل علم و دانش کے اس قتل عام کا کوئی خاص ذکر نہیں ہوا کیونکہ اس کا رویہ عموماً سرکاری پالیسیوں کے تابع ہوتا ہے،تاہم مغرب کے باضمیر اور انصاف پسند اہل قلم نے جس طرح نائن الیون کی حقیقت سمیت افغانستان اور عراق کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سراسر ناجائز فوجی کارروائی کے بہت سے گوشے بے نقاب کیے ہیں ، اسی طرح وہ عراق میں ہونے والے اہل علم کے اس قتل عام کے حقائق کو بھی منظر عام پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات نے بھی اس موضوع کو ازسرنو گرم کردیاہے۔
فارن پالیسی اِن فوکس نامی ایک آزاداور ممتاز امریکی تحقیقی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے اس قتل عام کے بارے میں سب سے پہلے اپریل 2004ء میں عراقی ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ٹیچرز کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی حملے کے بعد سے ایک سال کی مدت میں متعدد جامعات کی مختلف فیکلٹیوں کے سربراہوں سمیت ڈھائی سو سے زیادہ اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔
برطانیہ کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن نامی تنظیم کی ویب سائٹ پر دس ستمبر 2004ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”عراق کے لوگ قتل کی ان وارداتوں کے محرکات واضح نہیں کرسکتے جن میں بڑا تناسب عمرانی علوم کی فیکلٹیوں کے ارکان کا ہے۔“
بغداد یونیورسٹی میں جیالوجی کے ایک سابق استاد ساحل السِنَوی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” عراقی سائنسدانوں کو تو دھمکیاں ملا کرتی تھیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ لسانیات کے اساتذہ کو کیوں قتل کیا جارہا ہے؟“
ممتاز برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے 2004ء کے اوائل ہی میں عراقی اساتذہ کے قتل عام کی جانب توجہ دلائی تھی مگر مغربی خصوصاً امریکی میڈیا نے اس کاکوئی قابل ذکر نوٹس نہیں لیا۔ تاہم سات دسمبر 2006ء کو ایک معروف برطانوی روزنامے نے ” Iraq’s universities are in meltdown“ کے عنوان سے شائع کی گئی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی حملے کے بعد ساڑھے تین سال کی مدت میں 470 یونیورسٹی اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔جبکہ برطانیہ ہی کے ایک اور ممتاز اخبار نے بارہ دسمبر 2006ء کو ”Professors in penury“ کے عنوان سے اسی موضوع پر رپورٹ شائع کی ۔ اس کی ذیلی سرخی کے الفاظ تھے ”اساتذہ عراق میں یقینی موت سے بچنے کے لیے فرار پر مجبور ہیں مگر برطانیہ میں انہیں انتہائی غیریقینی زندگی کا سامنا ہے“۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ صرف بغداد اور بصرہ کی یونیورسٹیوں کے پانچ سو کے قریب اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔”عراق میں ثقافتی صفایا“ (Cultural Cleansing in Iraq) نامی کتاب کے مطابق( جس میں عراقی لائبریریوں کے نذر آتش کیے جانے، عجائب گھروں کے لوٹے جانے اور اہل علم کے قتل کیے جانے کی روح فرسا تفصیلات بیان کی گئی ہیں) مقتول اساتذہ میں سے 57 فی صد کا تعلق بغداد یونیورسٹی اور 14فی صد کا بصرہ یونیورسٹی سے تھا جبکہ 35فی صد اساتذہ سیکوریٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار یا اغواء ہونے کے بعد دوران حراست ہلاک ہوئے۔قتل ہونے والے اساتذہ میں سے44 فی صد دستی بندوقوں یا خودکار ہتھیاروں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔
فارن پالیسی ان فوکس کی رپورٹ میں اس نہایت معنی خیز بات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ” ان اساتذہ کے قتل کی نہ کسی نے ذمہ داری قبول کی نہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔عراق کے لوگ مارے جانے والوں سے تو براہ راست واقف ہیں مگر مارنے والوں کو کوئی نہیں جانتا۔“
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ کے قتل عام کی اس منظم مہم کے ساتھ ساتھ پوری اساتذہ برادری کو قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے ہزاروں عراقی اساتذہ اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ پوری دنیا کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسی کوئی سنجیدہ اورشفاف تحقیقات کبھی نہیں کرائی جائے گی کیونکہ انسانیت کے خلاف اس جرم میں اگر عراق پر قابض غاصب قوتیں خود شریک نہ ہوتیں تو یہ سلسلہ یوں بے روک ٹوک جاری ہی کیوں رہتا، اور یقینا یہی رویہ آج کے دور میں ہلاکو اور چنگیز کی یاد تازہ کردینے والی طاقتوں کے انسانیت سوز جرائم کا سب سے بڑا اور یقینی ثبوت ہے۔

ثروت جمال اصمعی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں