جہنم کی آگ گناہوں کا نتیجہ ہے،مولاناعبدالحمید

جہنم کی آگ گناہوں کا نتیجہ ہے،مولاناعبدالحمید
molana_19خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اس جمعے کے خطبے کا آغاز سورت تحریم آیت 6 سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے اس آیت میں ہم سب کو ’’مؤمن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے اور حکم فرمایا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچادو۔ ہر مؤمن کو اپنے آپ کے علاوہ گھر والوں کو بھی جہنم کی خطرناک آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

خطیب اہل سنت نے مزید کہا جو سرکشی وبغاوت کرے گا اللہ تعالی آتش جہنم سے اس کا استقبال فرمائے گا، ’’نار‘‘ ایک انتہائی دہشتناک اور خوفناک آگ ہے جو ظالموں اور سرکشوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج سارے انسان حتی کہ مسلمان اس آگ سے نہیں ڈرتے، چونکہ صرف اس کا نام سنتے ہیں اور روایتی انداز میں اس سے گذرجاتے ہیں مگر قرآن وسنت اور اس طرح کے عقائد مطلوب انداز میں دلوں بس نہیں گئے ہیں۔ مسلمان جہنم کے وجود کو مانتے ہیں لیکن ان کا ایمان کمزور اور عقیدہ سست ہے۔ اس لیے عذاب الہی سے خوف کا احساس باقی نہیں رہا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے حاضرین کو تعدی وظلم سے منع کرتے ہوئے کہا: جہنم کی آگ گناہوں کی آگ ہے۔ یہ زلزلے جو روزانہ کسی نہ کسی جگہ پر وقوع پذیر ہوتے ہیں لوگوں کے اعمال کے نتائج ہیں۔ ہمارے اعمال کا نتیجہ بعض اوقات سیلاب اور کبھی طوفان یا زلزلے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
انہوں نے تاکید کی توبہ واستغفار اور رجوع الی اللہ ہی کی برکت سے ان آفات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ انسانی معاشرے کی تمام مشکلات ومسائل کا حل اللہ کی طرف لوٹنے اور توبہ میں ہے۔
سرپرست دارالعلوم زاہدان نے مذکورہ آیت کے دیگر مفاہیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا در حقیقت قرآن پاک نے ہمیں گناہ نہ کرنے کا حکم دیکر دینی ذمہ داریوں کو پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اولاد و اہل خانہ کو سنبھالنے کا آرڈر ہے کہ کہیں وہ راہ حق سے منحرف نہ ہوجائیں، اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کرنی چاہیے۔ بہت سارے لوگ مسجد کی صف اول کے نمازی ہیں مگر اپنی اولاد سے غافل ہیں، خود مسجد میں ہیں مگر اولاد سے بیخبر ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا بعض والدین فجر کی نماز کے لیے اٹھتے ہیں مگر ان کے بچے، بیٹے بیٹیاں اور داماد سو رہے ہوتے ہیں، نماز قضا کرتے ہیں۔ ایسے والدین ’’یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم و اھلیکم ناراً۔۔۔‘‘ پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں یہ بڑے ہوکر توبہ کریں گے، ہماری طرح نمازی بن جائیں گے! کیا گارنٹی ہے کہ وہ آپ کی عمر تک پہنچ جائیں گے ، عزرائیل انہیں توبہ کی فرصت دیگا یا انہیں توبہ کی توفیق نصیب ہوگی۔
مولانا عبدالحمید نے ان والدین کو مخاطب کیا جن کی بچیاں کالج و یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں اور فرمایا: آپ کی ذمہ داری ایسی بچیوں کے حوالے سے انتہائی سنگین ہے جو ہائی سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ خیال رکھیے معاشرے کی فضا بہت پریشان کن ہے اور گناہ و معصیت وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ موبائل فون کا استعمال عام ہوچکا ہے، لڑکیوں کے ہاتھوں میں بھی موبائل فونز ہیں۔ یاد رکھیے فاسد لوگ بہت ہیں، کہیں وہ تمہارے بچوں کو دھوکہ نہ دیں۔ یہ انتہائی اہم اور قابل غور مسئلہ ہے۔ زیادہ خوش گمان نہ رہیں۔ میں آپ کو بدگمانی کی دعوت نہیں دیتا لیکن آپ احتیاط سے کام لیں۔ بچیوں کو تعلیم گاہ تک خود چھوڑ کر آئیں۔ ان کے کردار اور دوستوں پر نظر رکھیں۔ کہیں بْرے دوستوں کا شکار نہ بن جائیں۔
آخر میں خطیب اہل سنت زاہدان نے اکیسویں صدی کی جہالت کو اسلام سے پہلے کی جہالت سے بدتر قرار دیتے ہوئے کہا ہمیں توجہ کرنی چاہیے کہیں نادانی محض کا شکار نہ ہوجائیں۔ اسلام کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ خواتین پردے کا اہتمام کرتے ہوئے نت نئے فیشن کے پیچھے نہ پڑیں۔ بہتر یہی ہے کہ رہن سہن اور پوشاک میں اسلامی حدود کا خیال رکھا جائے۔ اگرکسی معاشرے میں حجاب نہ ہو وہاں عفت وحیا بھی نہیں رہے گی۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں