سوڈان میں علاحدہ وطن کے لئے ریفرینڈم کے لئے ووٹنگ جاری

سوڈان میں علاحدہ وطن کے لئے ریفرینڈم کے لئے ووٹنگ جاری
southern-sudan-votingجوبا (العربیہ، ایجنسیاں) سوڈان کے جنوبی خطے کے عوام آج ریفرینڈم کے ذریعے علاحدہ وطن کا فیصلہ کریں گے۔ اس حوالے سے پولنگ جاری ہے۔ اگر عوام کی زیادہ تعداد نے ’ہاں‘ کہا تو براعظم افریقا کا 54 واں اور دنیا کا 193 واں ملک وجود میں آ جائے گا۔

جنوبی سوڈان کے شہریوں کو نصف صدی پر محیط تباہ کن تنازعات کے بعد اس حوالے سے اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ ریفرینڈم کے لئے ووٹنگ کا عمل گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح پانچ بجے شروع ہوا اور سہ پہر دو بجے تک جاری رہے گا۔ تاہم ووٹنگ سات دِن جاری رہے گی اور اتوار اس کا پہلا دِن ہے۔
یہ تاریخی ریفرینڈم 2005ء میں سوڈان کے شمالی اور جنوبی خطوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا اہم حصہ تھا، جس کے نتیجے میں افریقہ کے طویل ترین تنازعے کا خاتمہ ممکن ہوا تھا۔
ریفرینڈم کے موقع پر سوڈان میں اہم عالمی شخصیات موجود ہیں، جن میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر، اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان اور ہالی وُڈ اسٹار جارج کلونی شامل ہیں۔
امریکی مندوبین کی سوڈان میں موجودگی کا مقصد ریفرینڈم کو معاہدے کے مطابق یقینی بنانا بتایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سوڈان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب سکاٹ گراٹیون ہی خطے کے دو درجن دورے کر چکے ہیں۔
جنوبی خطوں میں ہفتہ جشن کا دِن تھا۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق وہاں عوام کا جوش قابل دید تھا، جو شدت سے ریفرینڈم کے منتظر دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم مخالف گروپوں کے درمیان جھڑپیں اس جشن پر بھی حاوی رہیں، جو شمالی اور جنوبی خطے کے سرحدی علاقے میں ہوئیں۔
دوسری جانب جنوبی خطے کے رہنما سلواکیر نے اپنے شہریوں کے نام پیغام میں کہا کہ شمال کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ گزر بسر کے لئے اب کوئی متبادل باقی نہیں رہا۔ انہوں نے ریفرینڈم سے ایک روز قبل اپنے پیغام میں کہا، ’ساتھیو، اب محض چند گھنٹے باقی ہیں، جس کے بعد ہمیں اپنی زندگیوں کا سب سے اہم فیصلہ کرنا ہے۔ اب ہم جنگ کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ ریفرینڈم ان کی کوششوں کا انجام نہیں ہے بلکہ ایک نئے دَور کا آغاز ہے۔
یاد رہے کہ سوڈان کو 1956ء میں برطانیہ سے آزادی ملی تھی۔ تاہم تب سے ہی اس کے شمالی اور جنوبی خطوں کے درمیان مذہبی، نسلی، نظریاتی اور وسائل کی تقسیم پر تنازعات جاری ہیں۔ شمال میں عرب مسلمان اکثریت میں ہیں جبکہ جنوب میں افریقی مسیحی۔ سوڈان کے صدر بشرالاسد کہہ چکے ہیں کہ ریفرینڈم آزادانہ اور شفاف ہوا تو وہ نتائج تسلیم کر لیں گے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں