گورنر پنجاب نے توہین رسالت قانون کو کالا قانون کہا تھا اس لئے انہیں قتل کیا، ملک ممتاز حسین قادری

گورنر پنجاب نے توہین رسالت قانون کو کالا قانون کہا تھا اس لئے انہیں قتل کیا، ملک ممتاز حسین قادری
tasir-qaderiلاہور/ اسلام آباد (جنگ نیوز/جسارت/نیوز ایجنسیاں) گورنر پنجاب سلمان تاثیر وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایف سکس تھری میں واقع کوہسار مارکیٹ کے علاقہ میں اپنی حفاظت پرمامور ایلیٹ فورس کے اہلکار کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے ،حملہ آورنے خود کو پولیس کے حوالے کردیا،وفاقی حکومت نے 3 روزہ سوگ کااعلان کردیا،قومی پرچم آج سرنگوں رہے گا،پنجاب اورسندھ میں آج سرکاری تعطیل ہوگی،گورنرپنجاب کے جاں بحق ہونے کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا،اسپیکرپنجاب اسمبلی رانامحمداقبال نے قائم مقام گورنر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

تفصیلات کے مطابق گورنر سلمان تاثیر پر ان کے حفاظتی دستے میں شامل ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار ملک ممتاز حسین قادری نے منگل کی سہ پہر کوہسار مارکیٹ کے علاقہ میں اس وقت فائرنگ کردی جب وہ ایک مقامی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد گاڑی میں بیٹھنے کے لیے جا رہے تھے ‘ملزم نے فائرنگ کے بعد اسلحہ پھینک کر اپنے آپ کو وہاں موجود پولیس اہلکارو ں کے حوالے کردیا۔
فائرنگ سے گورنر پنجاب کو تھوڑی  ¾ سینے ا ور بازوں پر گولیاں لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے اور انہیں پولیس گاڑی میں فوری طور پر پولی کلینک ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ دم توڑ چکے تھے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی وفاقی وزرائ، پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں اورکارکنوں کی بڑی تعداد پولی کلینک پہنچ گئی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے بھی پولی کلینک کادورہ کرکے واقعہ پرافسوس کااظہار کیا۔بعدازاں سلمان تاثیر کی میت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)منتقل کردی گئی جہاں ان کاپوسٹ مارٹم ہوا ،پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سلمان تاثیر کو27گولیاںلگیں گردن میں لگنے والی ایک گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ وزیرداخلہ رحمن ملک کو بھجوادی گئی ۔
گور نر سلمان تاثیرکے قتل کی خبرملک بھرمیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی سندھ اورپنجاب سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے واقعہ کیخلاف احتجاج کیا اورکئی مقاما ت پرٹائرجلاکرٹریفک بلاک کردی بعض مقامات پرکاروباری مراکز بند کردیے گئے۔گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا مقدمہ رات گئے تھانہ کوہسار میں درج کرلیا گیا۔

گورنر پنجاب 20 نومبر کو آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کے بعد مذہبی رہنماؤں کے سب سے بڑے ٹارگٹ بن گئے تھے۔ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اور سلمان تاثیر کی جانب سے یہ کہنے کے بعد کہ وہ صدر زرداری سے آسیہ بی بی کو معاف کرنے کی درخواست کریں گے ، مذہبی رہنماؤں نے گورنر پنجاب کو گستاخ رسول قرار دیا تھا ۔
پنجاب ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے سلمان تاثیر کے گارڈ ملک ممتاز قادری نے اعتراف کیا ہے کہ گورنر کو قتل کرنے کا مقصد ان کا گزشتہ ماہ کا بیان ہے جس میں انہوں نے توہین رسالت ایکٹ کو کالا قانون کہا تھا۔سلمان تاثیر نے 20نومبر کو آسیہ بی بی سے ملاقات کے لئے شیخوپورہ ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ کیا اور کہا کہ آسیہ بی بی غریب اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھتی ہے اس کی سزا معاف کر دینی چاہئے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی نے اس بات سے انکار کیا ہے، انہوں نے اسلام یا حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے بلکہ انہوں نے الزام لگایا کہ دیہاتیوں نے ان سے زیادتی کرنے اور انہیں گلیوں میں گھسیٹنے کے لئے ان کا گھر تک پیچھا بھی کیا ہے۔
سلمان تاثیر نے کہا تھا کہ وہ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، تاہم وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آسیہ کو اس جرم میں سزا نہ ملے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
دو روز بعد ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا توہین رسالت قانون انسان کا بنایا ہوا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی آسیہ بی بی کے ساتھ ملاقات کو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے تاکہ عوام کو ان کے خلاف کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مسلمان توہین رسالت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ان کے لئے یہ ایشو اس حوالے سے اہم ہے کہ توہین رسالت قانون پر نظرثانی کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے جامع تحقیقات کرائی ہیں جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسیہ کے خلاف اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں توہین رسالت جرم ہے تاہم کسی پر اس کا جھوٹا الزام لگانا اس سے بڑا جرم ہے۔ آسیہ کے کیس سے بین الاقوامی خدشات سامنے آئے حتیٰ کہ اندرون ملک بھی تنقید ہوئی۔
سلمان تاثیر کی آسیہ سے ملاقات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ اگر صدر نے توہین رسالت کی ملزمہ کو معافی دی تو ان کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج کیا جائے گا۔
توہین رسالت قانون کی حامی مذہبی جماعتوں کے اتحاد ”تحریک ناموس رسالت“ نے تو صدر زرداری سے توہین رسالت قانون کے خلاف سخت بیانات دینے پر گورنر پنجاب کو برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
توہین مذاہب کے قوانین برٹش انڈیا میں 1860ء سے موجود تھے اور 1927ء میں پینل کوڈ میں آرٹیکل 295 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت دانستہ طور پر کسی بھی گروہ کے مذہبی اعتقادات کی توہین کو جرم قرار دیا گیا تھا۔
1982ء میں ضیاء الحق نے 295-B سیکشن متعارف کرایا جس کے تحت قرآن مجید کی بے حرمتی پر عمر قید کی سزا اور 1986ء میں 295-C کا سیکشن متعارف کرایا گیا جس کے تحت حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سزائے موت کا قانون بنایا۔ جب اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا تھا تو اس وقت کے وزیر قانون نے بھی اس کی حمایت نہیں کی تھی کیونکہ قرآن مجید میں اس جرم پر سزا تجویز نہیں کی گئی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں