
اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر کے ساتھ گفتگو میں کیا۔
”گورنر پنجاب کی ہلاکت کے سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے“ کے موضوع پر ہونے والے اس مباحثے میں سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی ، مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما شیخ وقاص اکرم ، سینئر تجزیہ کار اور جیو نیوز کے اینکر محمد مالک شریک ہوئے۔ پروگرام کے دوران اسلام آباد میں جیو نیوز کے بیورو چیف رانا جواد نے ملزم کے حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم نے گورنر پنجاب کو 26 گولیاں ماریں، حیران کن بات یہ ہے کہ باقی سیکورٹی گارڈز نے اُنہیں گولیاں چلانے سے نہیں روکا اور نہ ہی ملزم پر اُس وقت گولیاں چلائیں، جب گورنر زمین پر گرگئے تو ملزم کو زمین پر لٹایا اور ہاتھ باندھ کر منتقل کردیا گیا۔
ملزم 1985ءء میں پنڈی میں پیدا ہوا 2003ءء میں پولیس فورس کو جوائن کیا، 2008ءء میں ایلیٹ پولیس کی تربیت لی اور وی آئی پی ڈیوٹی پر مامور ہوا، کچھ عرصہ قبل اُس نے اپنی ڈاڑھی منڈوالی تھی اور کچھ عرصے بعد واپس رکھ لی تھی، حیران کن بات یہ ہے کہ کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کی ڈیوٹی ایسے شخص کے ساتھ لگائی جارہی ہے جن کے بیانات سے مذہبی جذبات بھڑک رہے ہیں، یہ تمام باتیں بہت سے سوالات جنم دیتی ہیں۔
پولیس کو دیئے جانے والے بیان میں ملزم نے کہا ہے کہ 3 دِن قبل اُس نے گورنر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پاس گورنر کی موومنٹ کا 3 دِن قبل ہی پلان موجود تھا۔
سعودی عرب میں موجود مولانا فضل الرحمان نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں ، یہ تمام باتیں اُسی کو تفویض ہونی چاہئیں لہٰذا ایسے واقعات کی پہلے بھی مذمت کی اور آج بھی کرتے ہیں جبکہ رحمان ملک اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ یہ توہین شان رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے کا ردِعمل ہوسکتا ہے۔
نوازشریف کی پریس کانفرنس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے جو بیان دیا ہے وہ عوامی دباؤ سے نکلنے کی کوشش ہے اور موجود ہ الٹی میٹم ہم آہنگی کے تحت لگتا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ توہین شان رسالت کے احتجاج کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر ہیں اور آنے والے دِنوں میں احتجاج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وہی کریں گے تاہم گورنر کے قتل کے بعد جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس حوالے سے مختلف جماعتوں کے ذمہ داران کو ملکر فیصلہ کرنا ہوگا۔
اعظم سواتی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے قائدین کیلئے موجودہ وقت انتہائی تکلیف دہ ہے، کسی بھی انسان کا قتل افسوسناک ہے، اسلامی نظریات کونسل کو فعال نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس طرح کا واقعہ رونما ہوا۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ آج ہم کتنی ہی تنقید کرلیں گورنر پنجاب کو قتل کرنے والا شخص کل قوم کا ہیرو بن کر نکلے گا اور جمعے کے خطبات میں اس کی تعریفیں کی جائیں گی، شان رسالت میں توہین کرنے والے کے سامنے مسلمانوں کے جذبات کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں واضح ہے کہ توہین شان رسالت کا جو مرتکب ہوگا وہ مارا جائے گا، اُس کا بچنا ہمارے معاشرے میں مشکل ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ حیران ہیں کا لعدم جماعتوں کے لوگ سیکورٹی اداروں میں کس طرح ضم ہو چکے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ ملک میں تمام شخصیات ہٹ لسٹ پر ہیں ۔
محمد مالک نے کہا کہ گورنر کے قتل کیلئے کسی مستند عالم نے فتویٰ نہیں دیا، لیکن جب فتوے آرہے تھے تو کسی مستند عالم نے اس کی مذمت بھی نہیں کی، اب ڈر ہے کہ شیری رحمان کو بھی قتل نہ کردیا جائے ۔
پورے ملک میں ایک جنونی کیفیت طاری ہے ،ہم توہین شان رسالت اور توہین شان رسالت کے قانون میں فرق نہیں کر پارہے، یہ قانون انسان کا بنایا ہوا ہے جس پر دو آراء ہوسکتی ہیں، ہمارے ملک میں پڑھے لکھے اور مذہبی دونوں طبقات میں جہالت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کے حوالے سے جہانگیر بدر، سردار لطیف کھوسہ کا نام چل رہا ہے ۔
”گورنر پنجاب کی ہلاکت کے سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے“ کے موضوع پر ہونے والے اس مباحثے میں سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی ، مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما شیخ وقاص اکرم ، سینئر تجزیہ کار اور جیو نیوز کے اینکر محمد مالک شریک ہوئے۔ پروگرام کے دوران اسلام آباد میں جیو نیوز کے بیورو چیف رانا جواد نے ملزم کے حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم نے گورنر پنجاب کو 26 گولیاں ماریں، حیران کن بات یہ ہے کہ باقی سیکورٹی گارڈز نے اُنہیں گولیاں چلانے سے نہیں روکا اور نہ ہی ملزم پر اُس وقت گولیاں چلائیں، جب گورنر زمین پر گرگئے تو ملزم کو زمین پر لٹایا اور ہاتھ باندھ کر منتقل کردیا گیا۔
ملزم 1985ءء میں پنڈی میں پیدا ہوا 2003ءء میں پولیس فورس کو جوائن کیا، 2008ءء میں ایلیٹ پولیس کی تربیت لی اور وی آئی پی ڈیوٹی پر مامور ہوا، کچھ عرصہ قبل اُس نے اپنی ڈاڑھی منڈوالی تھی اور کچھ عرصے بعد واپس رکھ لی تھی، حیران کن بات یہ ہے کہ کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کی ڈیوٹی ایسے شخص کے ساتھ لگائی جارہی ہے جن کے بیانات سے مذہبی جذبات بھڑک رہے ہیں، یہ تمام باتیں بہت سے سوالات جنم دیتی ہیں۔
پولیس کو دیئے جانے والے بیان میں ملزم نے کہا ہے کہ 3 دِن قبل اُس نے گورنر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پاس گورنر کی موومنٹ کا 3 دِن قبل ہی پلان موجود تھا۔
سعودی عرب میں موجود مولانا فضل الرحمان نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں ، یہ تمام باتیں اُسی کو تفویض ہونی چاہئیں لہٰذا ایسے واقعات کی پہلے بھی مذمت کی اور آج بھی کرتے ہیں جبکہ رحمان ملک اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ یہ توہین شان رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے کا ردِعمل ہوسکتا ہے۔
نوازشریف کی پریس کانفرنس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے جو بیان دیا ہے وہ عوامی دباؤ سے نکلنے کی کوشش ہے اور موجود ہ الٹی میٹم ہم آہنگی کے تحت لگتا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ توہین شان رسالت کے احتجاج کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر ہیں اور آنے والے دِنوں میں احتجاج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وہی کریں گے تاہم گورنر کے قتل کے بعد جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس حوالے سے مختلف جماعتوں کے ذمہ داران کو ملکر فیصلہ کرنا ہوگا۔
اعظم سواتی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے قائدین کیلئے موجودہ وقت انتہائی تکلیف دہ ہے، کسی بھی انسان کا قتل افسوسناک ہے، اسلامی نظریات کونسل کو فعال نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اس طرح کا واقعہ رونما ہوا۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ آج ہم کتنی ہی تنقید کرلیں گورنر پنجاب کو قتل کرنے والا شخص کل قوم کا ہیرو بن کر نکلے گا اور جمعے کے خطبات میں اس کی تعریفیں کی جائیں گی، شان رسالت میں توہین کرنے والے کے سامنے مسلمانوں کے جذبات کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں واضح ہے کہ توہین شان رسالت کا جو مرتکب ہوگا وہ مارا جائے گا، اُس کا بچنا ہمارے معاشرے میں مشکل ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ حیران ہیں کا لعدم جماعتوں کے لوگ سیکورٹی اداروں میں کس طرح ضم ہو چکے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ ملک میں تمام شخصیات ہٹ لسٹ پر ہیں ۔
محمد مالک نے کہا کہ گورنر کے قتل کیلئے کسی مستند عالم نے فتویٰ نہیں دیا، لیکن جب فتوے آرہے تھے تو کسی مستند عالم نے اس کی مذمت بھی نہیں کی، اب ڈر ہے کہ شیری رحمان کو بھی قتل نہ کردیا جائے ۔
پورے ملک میں ایک جنونی کیفیت طاری ہے ،ہم توہین شان رسالت اور توہین شان رسالت کے قانون میں فرق نہیں کر پارہے، یہ قانون انسان کا بنایا ہوا ہے جس پر دو آراء ہوسکتی ہیں، ہمارے ملک میں پڑھے لکھے اور مذہبی دونوں طبقات میں جہالت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کے حوالے سے جہانگیر بدر، سردار لطیف کھوسہ کا نام چل رہا ہے ۔
آپ کی رائے