
عراق میں ہلاک شدگان کا حساب کتاب رکھنے اور اموت سے متعلق رپورٹس جمع کرنے والے ایک ادارے ’عراق باڈی کاؤنٹ‘ کا کہنا ہے کہ دو ہزار نو کے مقابلے اس برس ہلاکتوں میں پندرہ فیصد کمی ہوئی ہے اور صرف چار ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔
اس ادارے کے مطابق اس برس اوسطاً ہر روز دو دھماکے ہوئے اور ہر دھماکے میں چار افراد کے حساب سے ہلاک ہوئے۔
تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد میں یہ کمی بہت ہی سست روی کا شکار ہے اور عین ممکن ہے کہ اس تعداد میں اس سے زیادہ کمی نہ ہو اور آنے والے برسوں میں اسی اوسط سے لوگ ہلاک ہوتے رہیں۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں آئی بی سی نے کہا ہے کہ اس برس تشدد کے واقعات میں تین ہزار نو سو چھہتر افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو ہزار نو میں چار ہزار چھ سو اسّی لوگ مارے گئے تھے۔ دو ہزار دس میں چھیاسٹھ فیصد اموات بم حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دارالحکومت بغداد اور شمالی شہر موصل سب سے زیادہ متاثرہ علاقے رہے ہیں۔
آئی بی سی کے مطابق ’تقریباً آٹھ برس بعد بھی عراق میں سکیورٹی کا بحران اس لیے قابلِ ذکر ہے کیونکہ یہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ حکومت مخالف گروہ تقریباً ہر روز دو دھماکے کر رہے ہیں جس میں عام شہری ہلاک ہو رہےہیں‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ دھماکے تقریبا ہر روز ہوتے رہے، اور یہ خطرناک دھماکے ہر جگہ ہوسکتے ہیں۔ عراقی انتظامیہ کے تحت اٹھارہ میں سے تیرہ علاقوں میں یہ حملے ہوئے‘۔
.اس ادارے کے مطابق اگست میں امریکی فوج کے اپنے مشن کے اختتام کے بعد اموت میں اس طرح کی کمی’اور زیادہ امید افزا بات ہے‘۔ رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں کے مشن کے خاتمے کے بعد ہی ’اگست اور ستمبر کے مہینے میں شہریوں کی اموات میں پچاس فیصد کمی دیکھی گئی اور یہ کمی سرمائی مہینوں تک جاری رہی‘۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار چھ اور سات میں جب سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں تب سے اموات کی تعداد میں کمی آتی رہی ہے لیکن گراوٹ کی اس شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ دو ہزار تین سے اب تک عراق میں اتحادیوں کے چار ہزار چار سو ستّر فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار جم موئر کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کے ہلاکت کے متعلق صحیح اعداد و شمار رکھنے کا تو کوئی بھی دعوی نہیں کر سکتا لیکن آئی بی سی نے اس متنازعہ مسئلے پر اپنی ایک ساکھ قائم کی اور وہ اس کے متعلق کچھ حوالے بھی مہیا کرتا ہے۔
آئی بی سی نے ان اعداد و شمار کو جمع کرنے کے لیے میڈیا کی رپورٹس کو چیک کیا ہے، لاش نکالنے والےعینی شاہدین سے بات کی ہے اور ہسپتال کے حکام سے انٹرویو کیا ہے۔
اس کے مطابق دو ہزار تین سے جاری تشدد میں اب تک ایک لاکھ آٹھ ہزار تین سو نواسی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یعنی عراق کے ہر ایک ہزار میں سے ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار عراقی حکومت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں۔ آئی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکی لیکس نے جو دیگر پندرہ ہزار شہریوں کی اموت کا انکشاف کیا ہے اسے بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اس ادارے کے مطابق اس برس اوسطاً ہر روز دو دھماکے ہوئے اور ہر دھماکے میں چار افراد کے حساب سے ہلاک ہوئے۔
تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد میں یہ کمی بہت ہی سست روی کا شکار ہے اور عین ممکن ہے کہ اس تعداد میں اس سے زیادہ کمی نہ ہو اور آنے والے برسوں میں اسی اوسط سے لوگ ہلاک ہوتے رہیں۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں آئی بی سی نے کہا ہے کہ اس برس تشدد کے واقعات میں تین ہزار نو سو چھہتر افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو ہزار نو میں چار ہزار چھ سو اسّی لوگ مارے گئے تھے۔ دو ہزار دس میں چھیاسٹھ فیصد اموات بم حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دارالحکومت بغداد اور شمالی شہر موصل سب سے زیادہ متاثرہ علاقے رہے ہیں۔
آئی بی سی کے مطابق ’تقریباً آٹھ برس بعد بھی عراق میں سکیورٹی کا بحران اس لیے قابلِ ذکر ہے کیونکہ یہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ حکومت مخالف گروہ تقریباً ہر روز دو دھماکے کر رہے ہیں جس میں عام شہری ہلاک ہو رہےہیں‘۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ دھماکے تقریبا ہر روز ہوتے رہے، اور یہ خطرناک دھماکے ہر جگہ ہوسکتے ہیں۔ عراقی انتظامیہ کے تحت اٹھارہ میں سے تیرہ علاقوں میں یہ حملے ہوئے‘۔
.اس ادارے کے مطابق اگست میں امریکی فوج کے اپنے مشن کے اختتام کے بعد اموت میں اس طرح کی کمی’اور زیادہ امید افزا بات ہے‘۔ رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں کے مشن کے خاتمے کے بعد ہی ’اگست اور ستمبر کے مہینے میں شہریوں کی اموات میں پچاس فیصد کمی دیکھی گئی اور یہ کمی سرمائی مہینوں تک جاری رہی‘۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار چھ اور سات میں جب سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں تب سے اموات کی تعداد میں کمی آتی رہی ہے لیکن گراوٹ کی اس شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ دو ہزار تین سے اب تک عراق میں اتحادیوں کے چار ہزار چار سو ستّر فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
بغداد میں بی بی سی کے نامہ نگار جم موئر کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کے ہلاکت کے متعلق صحیح اعداد و شمار رکھنے کا تو کوئی بھی دعوی نہیں کر سکتا لیکن آئی بی سی نے اس متنازعہ مسئلے پر اپنی ایک ساکھ قائم کی اور وہ اس کے متعلق کچھ حوالے بھی مہیا کرتا ہے۔
آئی بی سی نے ان اعداد و شمار کو جمع کرنے کے لیے میڈیا کی رپورٹس کو چیک کیا ہے، لاش نکالنے والےعینی شاہدین سے بات کی ہے اور ہسپتال کے حکام سے انٹرویو کیا ہے۔
اس کے مطابق دو ہزار تین سے جاری تشدد میں اب تک ایک لاکھ آٹھ ہزار تین سو نواسی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یعنی عراق کے ہر ایک ہزار میں سے ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار عراقی حکومت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہیں۔ آئی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وکی لیکس نے جو دیگر پندرہ ہزار شہریوں کی اموت کا انکشاف کیا ہے اسے بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
آپ کی رائے