وہ خاک نشین نہ تھی لیکن

وہ خاک نشین نہ تھی لیکن
bhutto-killingمحترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو تین برس گزر گئے۔ تقویم کے پیمانے سے ایک ہزار پچانوے دن، ایک ہزار پچانوے راتیں۔ وہ خاک نشینوں میں سے نہ تھی کہ اس کا لہو رزق خاک ہو جاتا۔ وہ لاوارث بھی نہ تھی کہ کوئی اس کے خوں بہا کا تقاضا نہ کرتا۔ وہ کمزور و تہی دست بھی نہ تھی کہ کوئی اس کے قاتلوں کی گردنیں دبوچنے اور ان کی بوٹیاں چیل کوؤں کا رزق بنانے برسر میدان نہ آتا۔ وہ کسی بے چہرہ، تانگہ یا کوچوان پارٹی کی سربراہ بھی نہ تھی کہ اس کا قتل کوئی ارتعاش پیدا کئے بغیر قصہ ماضی ہو جاتا۔ پھر ایسا کیوں ہوا کہ تین برس گزر گئے، ایک ہزار پچانوے دن اس کے چاہنے والوں کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑکائے بغیر گزر گئے، ایک ہزار پچانوے راتیں اس کے جانثاروں کی نیندیں حرام کئے بغیر وقت کے سمندر میں غرق ہوگئیں؟

بات ذرا تلخ ہے اور لاریب کہ ہر سچ تلخ ہوتا ہے۔ بی بی کے قاتلوں کے سراغ نہ لگنے کی سب سے بڑی وجہ بی بی کے وارثوں کی حکومت ہے۔ ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کرکے تصور کیجئے کہ 18/فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم (ن) یا کسی بھی دوسری جماعت کی حکومت قائم ہوجاتی۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن بینچوں پہ بیٹھی ہوتی تو بی بی کا قتل کتنا بڑا قومی مسئلہ بن جاتا۔
پاکستان کی فضاؤں میں ایک نعرہ صور اسرافیل کی طرح گونج رہا ہوتا کہ ”بی بی کے قاتلوں کو پکڑو۔“ بستیوں کے در وبام اس نعرے کی دھمک سے لرز رہے ہوتے، ہر روز خون میں لتھڑے دوپٹوں والے جلوس نکل رہے ہوتے، پارلیمینٹ کے لئے معمول کی کارروائی مشکل بنا دی جاتی۔ مہنگائی، بے روز گاری، غربت، امن و امان، تعلیم، صحت، توانائی کا بحران، زلزلے، سیلاب، اقتصادی مسائل، اٹھارہویں ترمیم، عدلیہ کی بحالی، سب کچھ کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا اور پیپلز پارٹی ایک ہی مطالبے کو آتشیں لاوے کی شکل دے کر حکمرانوں کا جینا حرام کردیتی کہ ”قاتل پکڑو“ حکومت کے لئے اس معاملے کو پس پشت ڈالنا ناممکن ہوجاتا۔
اس وقت کوئی صدر، کوئی وزیر اعظم یہ کہہ کے دیکھتا کہ ”جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے جو لے لیا گیا۔“ کوئی اس اعلان کی جسارت کرتا کہ ”مجھے بی بی کے قاتلوں کا علم ہے لیکن حالات کا تقاضا کچھ اور ہے۔ کوئی اس سنگین مسئلے کو بے معنی، بے سروپا، بے ثمر، بے نتیجہ اور بڑی حد تک مضحکہ خیز مشق بنانے کی کوشش کرکے دیکھتا۔
مجھے یقین ہے کہ اپوزیشن بینچوں پہ بیٹھی آتش زیر پا پیپلز پارٹی اپنی شہید چیئرپرسن کے قتل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ بناتے ہوئے حکمرانوں کو مجبور کردیتی کہ وہ اپنی تمام تر توانائیوں قاتلوں کے سراغ پر مرکوز کردیں۔ تین برس کے دوران وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ چکے ہوتے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کے لئے حکمرانی کا ایک ایک دن عذاب بنا دیا جاتا وہ تین سال کا لمبا سفر بہرحال طے نہ کرسکتے۔
مسلم لیگ (ن) کے دل میں تو مشرف اور اس کے مکروہات سے ذرہ برابر ہمدردی نہ تھی۔ وہ یقینا محترمہ کے قتل کے حوالے سے ان بے نام مصلحتوں اور مفاداتی مفاہمتوں کا شکار نہ ہوتی جو موجودہ حکومت کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہیں۔ پوری سنجیدگی سے قاتلوں کا سراغ لگاتی یا سال ڈیڑھ سال بعد ہی بوریا بستر سمیٹ کر گھر چلی جاتی۔
قتل کے حوالے سے مقتول کے آخری بیان کو زبردست اہمیت دی جاتی ہے۔ محترمہ نے مارک سیگل کو بھیجی گئی اپنی آخری ای میل میں واضح طور پر لکھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمہ داری پرویز مشرف پر ہوگی۔ انہوں نے مشرف کے ایک دست ہنر مند کا نام بھی لیا تھا جو ایک سرکاری انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ تھا۔ ظاہر ہے کہ قاتلوں کی کوئی تفتیش مشرف کو مرکزی نکتہ بنائے بغیر شروع ہی نہیں ہوسکتی۔ جو سیاسی بندوبست امریکیوں اور فوج کو یہ ضمانت دے چکا ہو کہ مشرف کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا اور سرکاری خرچ پر اسے محافظ فراہم کئے جائیں گے، وہ بندوست بے نظیر قتل کے حوالے سے خود فریب یا عوام فریب ٹامک ٹوئیاں تو مار سکتا ہے، قاتلوں کو نہیں پکڑ سکتا۔
25/اکتوبر کے ”دی نیوز“ میں معروف سفارت کار اور کالم نگار جناب ظفر ہلالی کا ایک مضمون شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے ایک ذاتی تجربے کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا۔
18اکتوبر 2007ء کے سانحہٴ کارساز کے بعد جب امریکن سفیر این پیٹرسن نے محترمہ بے نظیر کو فون کیا تو میں محترمہ کے پاس بیٹھا تھا۔ پیٹرسن نے زندگی بچ جانے پر بی بی کو مبارک باد دی… معمول کے خیر سگالی جملوں کے تبادلے کے بعد مشرف کی طرف سے کئے گئے سیکورٹی انتظامات کی لاتعداد خامیوں کی نشاندہی کی۔ بی بی کا کہنا تھا کہ بعض مقامات پر تو یہ محسوس ہوتا تھا جیسے جان بوجھ کر سیکورٹی میں شگاف رکھے گئے ہیں۔ بی بی نے پیٹرسن کو بتایا کہ مشرف نے ان کی غیر ملکی سیکورٹی گارڈز کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔ مشرف نے نہ صرف میری سیکورٹی کی ضمانت فراہم کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی بلکہ اس امر کو یقینی بنایا کہ کوئی دوسرا بھی یہ تحفظ فراہم نہ کرنے پائے۔ “جواب میں پیٹرسن کا کہنا تھا کہ ہاں! دیکھتے ہیں کہ کیا کیا جاسکتا ہے۔“ اگلی ہی سانس میں امریکی سفیر بولیں… ”بی بی اگر آپ کے دماغ میں مشرف کے بارے میں اتنے شکوک و شبہات ہیں تو اس کے ساتھ تعاون کے معاہدے کا کیا حشر ہوگا؟ یہ بڑے ہی ناشاستہ ریمارکس تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ مشرف کے طرز عمل کے بارے میں کچھ کہتیں، انہیں تعاون کے معاہدے کی فکر پڑ گئی جیسے 150 انسانی جانوں کی کوئی قیمت ہی نہ ہو۔ اس گفتگو سے سب کچھ عیاں ہوگیا۔ بی بی نے قدرے تلخی سے امریکی سفیر کو کہا… ”تو آپ مجھے ایک ایسے شخص سے تعاون کے لئے کہہ رہی ہیں جس نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی؟“
(So you want me to cooperate with a man who tried to kill me)
”دی نیوز“ ہی میں معروف صحافی عامر میر نے اپنے تازہ ترین آرٹیکل میں لکھا ہے۔”المناک قتل سے بمشکل چند ہفتے قبل بے نظیر بھٹو نے، کم از کم دو مواقع پر، ون ٹو ون ملاقات کے دوران، آف دی ریکارڈ یہ الفاظ کہے“۔ ”اگر میں قتل ہو جاؤں تو تم مشرف کو میرا قاتل نامزد کر سکتے ہو“۔
کتنے ہی تما شے لگ چکے ہیں۔ پولیس، ایف آئی اے، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، اسکاٹ لینڈ یارڈ، اقوام متحدہ لیکن ڈور کا سرا نہیں مل رہا۔ واحد وجہ یہ ہے کہ یہ محترمہ کے ورثا کی حکومت ہے اور یہ ورثا اس شخص کے ساتھ معاہدہ مفاہمت کے بعد تخت اقتدار پر براجمان ہیں جسے محترمہ قاتل خیال کرتی تھیں۔ شاید انہوں نے اقتدار کو محترمہ کے لہو کا خوں بہا“ سمجھ کر قاتل کو معاف کردیا ہے۔ ایسے میں کوئی اور کچھ نہیں کرسکتا۔ سیاسی قتل پہلے بھی ہوتے رہے لیکن یہ ہماری تاریخ کا واحد سیاسی قتل ہے جس کے فوراً بعد نہ صرف مقتولہ کی پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی بلکہ اس کے شوہر سربراہ مملکت کے منصب جلیلہ پر فروکش ہوگئے۔
اس کے باوجود تین سال گزر گئے۔ ایک ہزار پچانوے دن، ایک ہزار پچانوے راتیں۔ وہ خاک نشینوں میں سے نہ تھی لیکن اس کا لہو رزق خاک ہوگیا۔ باپ پہلے پھانسی چڑھ گیا۔ ماں حواس کھو چکی ہے اور نہیں جانتی کہ شہزادی کہاں چلی گئی۔ حکومت مضبوط ہے۔ اس کے کارپردازوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرے گی۔ گویا مزید دو برس بی بی کے نامزد کردہ قاتل سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوگی مزید دو سال مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

عرفان صدیقی
(بہ شکریہ اداریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں