
بات آگے بڑھاتے ہوئے سرپرست ’’شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان‘‘ مولانا عبدالحمید نے مزید کہا جب بھی یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ لوگوں کو ’’اصلاح مدارس اہل سنت ایکٹ‘‘ یاد آتا ہے۔ یہ عناصر در اصل شدت پسندوں کی کارروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھا نا چاہتے ہیں تا کہ ہمارے مدارس کو ’’اصلاح‘‘ کے خوش نما عنوان سے اپنے کنٹرول میں لے لیں۔
انہوں نے مزید کہا ہمارے مدارس اصلاح شدہ ہیں اور ہمیں حکومتی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نیز اہل سنت کے مدارس کی سرگرمیاں علمی وثقافتی شعبوں تک محدود ہیں۔ اینٹی شیعہ یا حکومت مخالف عناصر کے لیے ہمارے مدارس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے تاکید کی سیستان وبلوچستان ایک انتہائی اہم اور حساس دور سے گزر رہا ہے۔ ہماری راہ اتحاد وبھائی چارہ کی تقویت تھی اور رہے گی۔ بدامنی بلوچ وغیربلوچ، شیعہ اور سنی سمیت سب کے لیے باعث تشویش ہے۔ حکام کو اس ناسور کے خاتمے کے لیے تدبیر ومشورے سے کام لینا چاہیے۔ مزید کشت وخون کا سد باب کرنا ہے تو سارے دانشور، شیعہ وسنی کی سرکردہ شخصیات اور حکام مل بیٹھ کر بدامنی کے واقعات کے پیچھے کار فرما اسباب وعوامل کا مطالعہ کریں۔ تدبیر ودوراندیشی ہی سے صوبے کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔
آپ کی رائے