کاروبار اور تجارت کے اصول

کاروبار اور تجارت کے اصول
balanceاللہ تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ اس میں ہر انسان کا تعلق و معاملہ دوسرے انسان سے ضرور بہ ضرور ہوتا ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً نہ اکیلا رہ سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کا محتاج ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کا تمام کاروبار باہمی احتیاج اور ضرورت پر قائم رکھا ہے۔ غریب مالدار کا محتاج ہے کہ وہی اس کے لیے نانِ جویں کا ذریعہ ہے۔ مالدار غریب کا ضرورت مند ہے کہ غریب مزدوروں کی قوت ِبازو اور عرق آلود جسم کے بغیر نہ فلک بوس عمارتیں وجود میں آسکتی ہیں اور نہ حسین و جاذب نظر سبزہ زار سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ”تجارت“ بھی ایک ضرورت ہے۔ عام شہری اس کے محتاج ہیں کہ ان کو ملک بھر اور دوردراز کی مصنوعات اور پیداوار، سفر کی مشقت و کلفت کے بغیر میسر آجائیں۔ اور تاجر اپنے گاہکوں کا کہ خریداری ان کے لیے قوامِ حیات فراہم کرے گی، اس لیے شریعت نے نہ صرف تجارت کی اجازت دی بلکہ اس کو سراہا اور تجارت کے احکام و قوانین اور آداب و مستحبات اس وضاحت سے بتائے کہ کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
شریعت ِمطہرہ نے خرید و فروخت کے معاملے میں انتہائی متوازن اور آسان اصول وضع کیے ہیں جن سے تاجر اور خریدار کو نہ تو نقصان یا دھوکے کا اندیشہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جو مستقبل میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنے۔ شریعت نے ایسے اصول مرتب کیے ہیں جن سے ایک فریق دوسرے فریق کا نہ تو استحصال کر (حق مار) سکے اور نہ ہی دھوکہ دہی، فریب کاری اور چالبازی سے کام لے۔ شریعت نے خریدو فروخت کے معاملے میں اس دروازے کو بند کرنے کی کوشش کی ہے جس سے باہمی نزاع کا اندیشہ ہو۔ شریعت نے خریدو فروخت کے حوالے سے چند بنیادی اور انتہائی اہمیت کے حامل اصول وضع کیے ہیں۔
1…. شریعت نے ان تمام صورتوں کو ناپسند قرار دیا ہے جس میں دھوکہ دہی ہو۔ تاجر گاہک کے سامنے سامان کی خامیوں کو چھپائی، یہ صورت ناجائز ہے۔
2…. ایسی اشیاءکی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جو گناہوں کے کاموں میں تعاون کا ذریعہ بنتی ہیں جیسے شراب کی خریدو فروخت یا فتنے کے زمانے میں اسلحہ فروخت کرنا وغیرہ۔
3…. ایسی چیز کی خریدو فروخت جس کو ادا کرنا خریدار یا تاجر کے لیے ممکن نہ ہو یعنی وہ آپ کے قبضے میں نہ ہو، جیسے اڑتے ہوئے پرندوں یا تالاب میں مچھلیوں کی خریدوفروخت وغیرہ۔
4…. ایسی تمام صورتیں جن سے مستقبل میں خریدار اور تاجر کے درمیان لڑائی جھگڑے کا اندیشہ ہو اسلام ان کو منع کرتا ہی، مثلاً چیز کی قیمت متعین نہ ہو، ادائیگی کا وقت مقرر نہ ہو وغیرہ۔
5…. خرید و فروخت کا اہم اصول کہ چیز کی خرید و فروخت میں عاقدین (خریدار اور تاجر دونوں) مطمئن اور باہمی رضامندی سے معاملہ کریں، کوئی زبردستی نہ ہو۔
6…. شریعت نے تجارت میں ایسی شرائط لگانے کو ناپسند کیا جو معاملہ بیع (خریدو فروخت) کے اصل تقاضوں کے خلاف ہوں۔ مثلاً فروخت کرنے کے بعد تاجر یہ شرط لگائے کہ ایک مہینے تک میں استعمال کروں گا، یہ شرط درست نہیں کہ خرید و فروخت ہونے سے یہ چیز خریدار کی ملکیت بن گئی، اب اس پر تاجر کا کوئی حق نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں خرید و فروخت کا بیان فرمایا ہے وہیں اس معاملے کی سب سے اہم چیز ناپ تول کا بھی ذکر فرمایا ہے اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت شعیبؑ کی قوم میں ناپ تول میں کمی کرنے کی بیماری تھی جس کا ذکر اللہ نے قرآن میں ان الفاظ میں فرمایا ہی: (ترجمہ) ”اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے، اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو، آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس دن کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ اور اے برادران قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو، اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں“۔ (سورہ ھود: آیت 84 تا 86)
علامہ ابن کثیر آیت ِمذکورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”(حضرت شعیب ؑ نے) پہلے تو اپنی قوم کو ناپ تول کی کمی سے روکا، انہیں لین دین کے وقت عدل و انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپ تول کا حکم دیتے ہیں اور زمین میں فساد اور تباہ کاری کرنے کو منع کرتے ہیں۔ ان میں رہزنی اور ڈاکے مارنے کی بدخصلت بھی تھی، لوگوں کے حق مار کر خود نفع اٹھانے سے اللہ کا دیا ہوا نفع بہت بہتر ہے، اللہ کی یہ وصیت تمہارے لیے خیریت لیے ہوئے ہے، کہ عذاب سے جیسے ہلاکت ہوتی ہی، اس کے مقابلے میں رحمت سے بقیت ہوتی ہے۔ ٹھیک تول کر، پورا ناپ کر حلال سے جو نفع ملے اسی میں برکت ہوتی ہے۔ خبیث و طیب میں کیا مساوات؟ دیکھو میں تمہیں ہر وقت دیکھ نہیں رہا، تمہیں برائیوں کا ترک اور نیکیوں کا فعل اللہ ہی کے لیے کرنا چاہیے نہ کہ دنیاوی دکھاوے کے لیے۔“ (تفسیر ابن کثیر۔ ج دوم) اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة مطففین میں بھی بیان فرمایا ہی: (ترجمہ) ”بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا انہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے کا یقین نہیں“۔ (آیت نمبر 1 تا 4)
علامہ ابن کثیر اس آیت کی شانِ نزول کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”نسائی اور ابن ماجہ میں ہی، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی مدینہ تشریف لائے اس وقت اہلِ مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے ناپ تول بہت
درست کرلی۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت بلال ابن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: کیوں نہ رکھتی، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (ویل للمطففین) ہے۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا، اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے اور ہلاک ہونے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں دیا ہے (اوفو الکیل و المیزان بالقسط) کہ ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر دیا کرو“۔ (ابن کثیر۔ ج پنجم)
حضرت شعیبؑ کی جانب سے قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے سے روکا گیا تو قوم نے جواب دیا: (ترجمہ) ”اے شعیب، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھی؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو، بس ت ±و ہی تو ایک عالی ظرف اور ممتاز آدمی رہ گیا ہے۔“ (ھود۔ آیت نمبر 87) ایک جیّد عالم دین اس آیت کی نہایت ہی انیق تفسیر بیان کرتے ہیں کہ ”یہ اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کے نظریے کی پوری ترجمانی ہے، اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے سوا جو طریقہ بھی ہے غلط ہے اور اس کی پیروی نہ کرنی چاہیے، کیونکہ دوسرے کسی طریقے کے لیے عقل، علم اور کتب ِآسمانی میں کوئی دلیل نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کی بندگی صرف ایک محدود مذہبی دائرے ہی میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمدن، معاشرت، معیشت، سیاست غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہونی چاہیے، اس لیے کہ دنیا میں انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے، اور انسان کسی چیز پر بھی اللہ کی مرضی سے آزاد ہوکر خودمختارانہ تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا، اس کے مقابلے میں جاہلیت کا نظریہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو طریقہ بھی چلا آرہا ہے انسان کو اس کی پیروی کرنی چاہیے، اور اس کی پیروی کے لیے اس دلیل کے سوا کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ باپ دادا کا طریقہ ہی، نیز یہ کہ دین و مذہب کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے ہے، رہے ہماری زندگی کے عام دنیوی معاملات، تو ان میں ہم کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ جس طرح چاہیں کام کریں۔
اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دائروں میں الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزار برس پہلے حضرت شعیبؑ کی قوم کو بھی اس تقسیم پر ویسا ہی اصرار تھا جیسا کہ اہلِ مغرب اور ان کے مشرقی شاگردوں کو ہی، یہ فی الحقیقت کوئی نئی ”روشنی“ نہیں ہے جو انسان کو آج ذہنی ارتقاءکی بدولت نصیب ہوگئی، بلکہ یہ وہی پرانی تاریک خیالی ہے جو ہزار ہا برس پہلے کی جاہلیت میں بھی اسی شان سے پائی جاتی تھی اور اس کے خلاف اسلام کی کش مکش بھی آج کی نہیں ہی، بہت قدیم ہے۔“ تجارت ایک ایسا شعبہ ہے جس کو درست نیت سے کیا جائے تو باعث ِاجر و ثواب ہے اور اگر غلط یعنی دھوکہ یا حرام ذرائع سے مال کمانے کی نیت سے کیا جائے تو اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ: ”حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا: (قول و فعل میں) نہایت سچائی اور نہایت دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرنے والا شخص نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا“۔ (ترمذی،دارمی، دارقطنی، بحوالہ مشکوٰة) صاحب ِمظاہر حق علامہ محمد قطب الدین فرماتے ہیں کہ ”ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جو کاروباری شخص سچائی، دیانت داری اور امانت سے متصف ہوگا، گویا اس کی زندگی تمام صفات ِکمالیہ سے مزین ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ میدانِ حشر میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا کہ جس طرح وہاں کی ہولناکیوں کے وقت یہ تینوں طبقے رحمت الٰہی کے سایہ میں ہوں گے اسی طرح وہ شخص بھی رحمت خداوندی کی خاص پناہ میں ہوگا یا اسے جنت میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا۔ چنانچہ اسے انبیاءکی رفاقت تو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے حاصل ہوگی۔ صدیقوں کا ساتھ ان کے وصف ِخاص یعنی صدق کی موافقت کی وجہ سے ہوگا اور شہیدوں کی رفاقت کی سعادت اسے اس لیے نصیب ہوگی کہ شہداءاس شخص کے وصف صدق و امانت کی شہادت دیں گے۔“ (مظاہر حق۔ ج دوم، ص 56)

دوسری حدیث میں ہے ”حضرت عبید ابن رفاعہ اپنے والد حضرت رفاعہ ابن رافع انصاری سے اور وہ نبی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن تاجر لوگوں کا حشر فاجروں (یعنی دروغ گو اور نافرمان لوگوں) کے ساتھ ہوگا، یہاں (وہ تاجر اس سے مستثنیٰ ہوں گی) جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی (یعنی خیانت اور فریب دہی وغیرہ میں مبتلا نہ ہوئی) اور نیکی کی (یعنی اپنے تجارتی معاملات میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا یا یہ کہ عبادت خداوندی کرتے رہے) اور سچ پر قائم رہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اگر ہم ناپ تول کے معاملے میں کمی پیشی کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں نفع بہت کم ہی ملتا ہے لیکن اس کم نفع کی وجہ سے ہماری ساری حلال کمائی، حلال کی محنت حرام میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایک تاجر ناپ تول میں سو فیصدی کمی تو ہرگز نہیں کرسکتا، چند گرام کا فرق کرکے وہ اپنی حلال کمائی کو حرام اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کررہا ہے کیونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ دھوکے باز تاجر کا مال بہت جلد ختم اور اس کا کاروبار تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ اس چھوٹی سی حرکت کی وجہ سے پوری محنت برباد ہوجاتی ہی، کیونکہ اعمال کے ثواب کا دارومدار نیت کے ساتھ ساتھ اختتام پر بھی ہے۔ اگر خاتمہ بہتر ہوگا تو پورا معاملہ درست ہوگا، وگرنہ نہیں۔
انہی باتوں کو قرآن مجید نے بھی بیان فرمایا ہے کہ: ”اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو“۔ (سورة النسائ۔ آیت نمبر 2) علماءکرام لکھتے ہیں: ”یہ جامع فقرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے نہ بدل لو“۔ اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ”اپنے اعمال کو ضائع مت کرو“۔ درحقیقت یہی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہی ہمارے نیک اعمال کو بھی ضائع کردیتی ہیں، پوری حلال تجارت کو حرام کردیتی ہیں۔ اللہ ہمیں ہر معاملے میں اپنے رب سے ڈرنے والا اور نیک اعمال کر نے والا بنائے۔( آمین)

عابد علی
(بہ شکریہ اداریہ کراچی اپ ڈیٹس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں