فقیہ بلوچستان علامہ محمد شہداد سراوانی رحمہ اللہ

فقیہ بلوچستان علامہ محمد شہداد سراوانی رحمہ اللہ
shahdadفقیہ عالم دین، علامہ محمد شہداد سراوانی (مسکانزئی) رحمہ اللہ کا شمار بلوچستان کے معاصر ممتاز ونامور علماء میں ہوتاہے۔ علامہ محمدشہداد کی پیدائش 1924ء کو ایرانی بلوچستان کے شہر سراوان کے علاقہ ’’کہن ملک سراوان‘‘ کے ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔

تعلیمی زندگی:
مکتب خانوں میں داخل ہونا دینی تعلیم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ مولانا شہداد سراوانی نے بھی بچپن میں ایک قرآنی مکتب میں داخلہ لیا اور ’’ملا عثمان‘‘ نامی استاذ سے بعض ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ شروع میں آپ نے ایک مدت تک دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تعلیمی سرگرمیاں چھوڑ دیں، لیکن پھر بعض ایسے واقعات رونما ہوئے کہ آپ دوبارہ تعلیم جاری رکھنے کا عزم کرگئے۔ اسی مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مرحوم اپنے سوانح عمری میں رقمطراز ہیں: ’’لیکن کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالی نے اس حیران بندے کیلیے ہدایت کا چراغ روشن کردیا، جسے اللہ چاہیے ہدایت دیتا ہے۔ میرے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ ارشاد خداوندی کے مطابق ’’عسیٰ ان تکرھوا شیئاً و ھو خیر لکم‘‘ اس سانحے کا مجھ پر بہت گہرا اثر پڑ گیا، میں اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوا، خوف الہی میرے دل میں آیا اور میں نے قیامت کو یاد کی۔ میں نے عزم کیا کہ جس کامیابی کو کھوچکا ہوں اسے پاکر دم لوں گا۔‘‘
اس واقعے کے بعد مولانا شہداد کی والدہ کے ایک رشتہ دار ’’ملا عبدالرحیم‘‘ امامت کے لیے ’’ناہوگ‘‘ نامی بستی سے ’کہن ملک‘ تشریف لائے۔ مولانا شہداد نے اس موقع کو دینی تعلیم جاری رکھنے کے لیے غنیمت سمجھا اور ملا عبدالرحیم سے عربی وفارسی کی ابتدائی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد بغیر کسی رہ نما یا شناسائی کے آپ ’’سرباز‘‘ چلے گئے جہاں ’’دپکور‘‘ میں معروف عالم دین علامہ قاضی عبداللہ ملازادہ کے پاس ٹھہر گئے۔
قاضی عبداللہ دارالعلوم زاہدان کے بانی مولانا عبدالعزیز ملازادہ کے والد مکرم ہیں۔
مولانا شہداد نے دو سال تک مرحوم قاضی عبداللہ سے علمی استفادہ کیا اور آپ (رح) سے قدوری، کنزالدقائق اور منیۃ المصلی جیسی ابتدائی فقہی کتابیں پڑھ کر 1941ء کو سرباز سے واپس سراوان چلے گئے۔

مولانا شہداد کے علمی اسفار:
1360ھ۔ق کے ذی القعدہ (نومبر 1941ء) میں آپ نے بر صغیر ہندوستان کا رخ کیا جو اس وقت برطانیہ کے زیر نگین تھا۔ اعلی دینی مراکز ومدارس میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے ’’سوران‘‘ سے پیدل سفر کا آغاز کیا۔ شرعی علوم کے طلب کا شوق اس سفر میں آپ کا واحد ساتھی تھا۔
ریاست قلات کے حاکم کی جانب سے ’’سریاب‘‘ میں متعین قاضی عبدالصمد کی سفارش پر مولانا شہداد سراوانی ’’جامعہ نصیریہ‘‘ ڈھاڈر(بلوچستان، پاکستان) میں داخل ہوگئے۔ سریاب اب پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ کا جزو بن چکا ہے۔ جامعہ نصیریہ ڈھاڈر(ضلع بولان) کا سنگ بنیاد والی قلات مرحوم احمد یارخان نے رکھا تھا جس میں بلوچستانی طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔ خان آف قلات بذات خود اس دینی مدرسے کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے۔
ایک سال کے اندر مولانا سراوانی فنون عربی کی بنیادی کتب صرف میر، نحومیر، شرح ماءۃ عامل اور ہدایۃ النحو کو مذکورہ مدرسے میں پڑھ لیں۔ یہ وہی سال تھا جس میں بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیز ملازادہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہو کر وطن واپس آگئے۔
علامہ شہداد سراوانی اپنے سوانح حیات میں لکھتے ہیں: ’’انہی دنوں میں یعنی 1360ھ۔ق کو علامہ شیخ عبدالعزیز ولد مولانا قاضی عبداللہ دھلی سے واپس آئے، آپ (رح) کے ساتھ بعض دیگر علماء بھی تھے جو دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ یہ حضرات ’’ڈھاڈر‘‘ اس مدرسے میں آئے جہاں میں پڑھتا تھا۔ چند دنوں کے قیام کے بعد اپنے اپنے علاقوں کی جانب روانہ ہوگئے۔ اس طرح جس سال میں، مَیں نے (جامعہ نصیریہ میں) تعلیم کا آغاز کیا اسی سال میں مولانا عبدالعزیز فارغ التحصیل ہوکر دارالعلوم دیوبند سے واپس آئے۔‘‘
1942ء میں خان قلات نے جامعہ نصیریہ کے مہتمم مولانا محمد شریف کشمیری کو حکم دیا کہ تیس مستعد اور ذہین طلبہ کے ایک گروپ کو تیار کرکے خان آف قلات کے خرچے پر دارالعلوم دیوبند روانہ کرے۔ مرحوم احمدیارخان کے حکم کی تعمیل میں 30 بااستعداد طلبہ کی ایک جماعت ’’سبی‘‘ ریلوے اسٹیشن سے بہ ذریعہ ٹرین دیوبند بھیج دی گئی۔ علامہ محمد شہداد سراوانی بھی ان طلبہ میں شامل تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں:
مولانا محمد شہداد سراوانی 1942ء کو دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوگئے جہاں آپ نے فقہ، منطق، کلام، ادب عربی ودیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔
آپ نے متعدد ممتاز علمی شخصیات سے استفادہ کیا جن میں علامہ حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علی، مولانا ابراہیم بلیاوی اور مولانا عبدالسمیع کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ آپ نے اکابر ہند اور بر صغیر میں سرگرم اسلامی تحریک کے ممتاز رہ نماؤں سے علوم دینیہ کے علاوہ حریت وآزادی کا سبق بھی حاصل کیا۔
آزادی بر صغیر اور ہند و پاکستان کی تقسیم کے بعد مولانا سراوانی نے تعلیم مکمل کرکے ایران واپس آگئے۔ آپ نے اپنی دینی و ثقافتی سرگرمیوں کا آغاز سراوان کے معروف علاقہ ’’سوران‘‘ سے کیا۔
مولانا شہداد سراوانی نے اپنے علاقے میں تعلیم کا میدان گرم رکھا، عوام کے تنازعات کے تصفیے کے لیے کوشش کرتے رہے اور مفاسد وخرافات کا مقابلہ کرتے رہے۔ آپ (رح) کی دن رات کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور عوام ان کی خطابت وعلمی مقام سے بہت متاثر ہوئے۔ استفادہ کے لیے دور دراز علاقوں سے لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔

پہلا سفر حج:
مولانا شہداد سراوانی پہلی بار جولائی 1950ء کو براستہ ’’آبادان‘‘ اور کویت فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کی جانب روانہ ہوئے۔ حرمین شریفین میں حج ادائیگی کے بعد آپ بخیر وعافیت واپس آگئے۔

’’مجمع العلوم سرجو‘‘ میں آپ کی خدمات:
1956ء میں متعدد اہل علم وعمائدین نے ’’سرجو‘‘ نامی علاقے میں ایک مدرسے کی تعمیر پر تبادلہ خیال کیا۔ چنانچہ ایک اہم اجلاس میں جس میں بلوچستان کے نامور علماء ودینی رہ نما جیسا کہ مولانا عبدالعزیز ملازادہ، مولانا سید عبدالواحد سیدزادہ اور مولانا قمرالدین ملازئی وحمہم اللہ موجود تھے، طے پایا گیا کہ ’’سرجو‘‘ میں ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی جائے جس کی صدارت واہتمام مولانا شہداد سراوانی کریں گے۔ شروع میں آپ (رح) نے اس دینی ادارے کے اہتمام سے معذرت کی اور ایک سال تک مولانا عبدالواحد سیدزادہ مدیر مقرر ہوئے۔
پھر مولانا شہداد ’’سوران‘‘ سے ’’سرجو‘‘ منتقل ہوئے اور 25 برس تک (1981ء تک) مجمع العلوم میں بحیثت مہتمم خدمات سرانجام دیتے رہے۔
اس کے بعد آپ (رح) بعض احباب کے مشورے پر ’’زاہدان‘‘ تشریف لے آئے۔ زاہدان میں آپ بحیثیت جج ’’اسلامی انقلاب کورٹ‘‘ میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ اس دوران آپ تدریسی زندگی سے بھی غافل نہیں رہے اور ’’جامعہ حمادیہ‘‘ زاہدان میں تدریس کرتے رہے۔

علمی مقام:
مولانا شہداد مسکانزئی ایک ماہر فقیہ تھے، آپ (رح) اپنی فقاہت وعلمی مکانت کی وجہ سے کافی مشہور تھے، جب آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ فوراً جواب دیتے تھے اور کتب کے مراجعے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اسی وجہ سے بعض علمائے کرام آپ (رح) کو ’’فقیہ بلوچستان‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ (رح) منطق وفلسفہ میں کافی ماہر تھے۔ چنانچہ آپ (رح) اپنے بیانات وخطبات کو منطقی قواعد کی بنیاد پر بیان فرماتے تھے۔ بہر حال آپ شیخ المعقول والمنقول مولانا ابراہیم بلیاوی (رح) کے شاگرد رشید تھے اور ان کے اس انداز کا سرچشمہ یہی تعلق تھا۔

آپ (رح) کی اخلاقی خصوصیات:
با وجود اس کے کہ مولانا شہداد سراوانی انتہائی ماہر وممتاز عالم دین تھے اور تلامذہ ورشتہ داروں میں جلالی صفت کے حوالے سے مشہور تھے، مگر آپ سب سے زیادہ متواضع آدمی تھے۔ آپ (رح) کی مجلسیں محبت ومودت کی خوشبو سے معطر تھیں۔ آپ (رح) حق کے بیان اور اس کے دفاع میں ہرگز سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔

آپ (رح) کی تصنیفات:
مولانا شہداد رحمہ اللہ نے دس سے زائد رسالے اور کتابیں لکھیں جو ان کے اعلی علمی مقام پر گواہ ہیں۔ یہ کتابیں اکثر فارسی زبان میں ہیں۔
۱۔ زبدۃ العقائد
۲۔ سرور شہیدان
۳۔ قول معقول در حکم آمپول (ٹیکے کے احکام)
۴۔ نماز مصور
۵۔ فضیلت جمعہ
۶۔ بیت المقدس والفتوحات الاسلامیہ
۷۔ جامع المسائل (دو جلدوں میں)
۸۔ داستان وفات خاتم النبیاء صلی اللہ علیہ وسلم
۹۔ اثبات وجود الرب عزوجل
۱۰۔ رفع الالتباک عن حکم التنباک
۱۱۔ فضائل ومسائل رمضان

اس کے علاوہ آپ رحمہ اللہ نے بعض اردو وعربی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ فرمایا، جیسا کہ:
۱۔ تفہیمات سیدنا علی رضی اللہ عنہ
۲۔ ازدواج ام کلثوم
۳۔ تیسیر المنطق
۴۔ نماز کامل
۵۔ علوم القرآن

سانحہ وفات:
مولانا شہداد سراوانی شعبان 1407ھ۔ق (1987ء) کو تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کیلیے پاکستان کے شہر پنجگور (بلوچستان) تشریف لے گئے۔ لیکن اجتماع کے اختتام سے پہلے آپ اللہ کے نیک بندوں کے درمیان ہوتے ہوئے اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ یہ اللہ تعالی کی مشیت تھی کہ یہ مایہ ناز فقیہ وقاضی اپنے اس سفر سے واپس نہ آسکیں چنانچہ آپ کا جسد خاکی پنجگور ہی میں دفنادیا گیا۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ واسکنہ فسیح جناتہ.

SunniOnline.us/urdu


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں