’اہل سنت ایران کے مسائل پُرتشدد واقعات کے جوازنہیں ہوسکتے‘

’اہل سنت ایران کے مسائل پُرتشدد واقعات کے جوازنہیں ہوسکتے‘
molana_15امام وخطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے تاسوعا کے موقع پر چابہار میں نکلنے والے تعزیتی جلوس پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ایسے اقدامات کے کوئی شرعی جواز ہے نہ ہمارے روایات وعرف اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ہم بدھ کی صبح کو شیعہ برادری پر ہونے والے حملے کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ بے گناہ شہریوں کو لہولہاں دیکھ کر ہمیں بیحد افسوس ہوا۔ یہ سانحہ ایک بڑا جرم ہے۔

انہوں نے مزید کہا مذہبی وعوامی اجتماعات کو نشانہ بنانے کی اجازت شریعت دیتی ہے نہ عرف عام میں اسے اچھا سمجھا جاتاہے۔ میری دعا ہے اللہ تعالی اس خطے کو ایسے سانحات وفتنوں سے حفاظت فرمائے۔
جمعہ کی نماز میں شرکت کیلیے آنے والے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا اہل سنت والجماعت ایران اور شرپسند عناصر کے درمیان فرق کرنا چاہیے۔ سنی برادری ہمیشہ اتحاد، بھائی چارہ، قومی وحدت اور تحمل وبرداشت کی دعوت دیتی چلی آرہی ہے۔ ہم شیعہ ہم وطنوں کے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرکے اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اسلام سے منسوب تمام فرقوں کا خون حرام ہے۔ مشکلات کو گفت وگو اور مذاکرات سے حل کرنا چاہیے،ہمارا خیال ہے اس مختصر زندگی کو محبت واتحاد کے ساتھ گزارنی چاہیے۔
امام وخطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: میں اہل سنت والجماعت ایران اور بلوچ برادری کے مسائل ومشکلات کی نفی نہیں کرتا، لیکن متعدد بحرانوں کی موجودگی پر تشدد واقعات کے لیے ہرگز جواز نہیں۔ بلکہ ہم ہمیشہ گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا عزم ظاہر کرتے چلے آرہے ہیں۔ چاہے ان بات چیت ومذاکرات کا مثبت نتیجہ سامنے آئے یا نہ آئے۔
صرف جرم کے ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے ودیگر لوگوں پر ہاتھ نہ اٹھانے پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اس سانحہ کے متاثرین سے تعزیت کرتے ہوئے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکمرانوں کو جاننا چاہیے کو بلوچ قوم اور اہل سنت برادری تشدد کے خلاف ہیں۔ جو تشدد اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرتا ہے سزا صرف اسی کو ملنی چاہیے۔
انہوں نے سنی برادری کے مشکلات پر تاکید کرتے ہوئے کہا: یہ سنی مسلمانوں کا قانونی وجائز حق ہے کہ گفت وشنید اور قانونی و پرامن طریقے تو سے اپنے مسائل سے حکام کو آگاہ کریں۔ لیکن اگر کوئی بلوچ یا سنی شہری جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہی اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا پوری بلوچ قوم یا سنی برادری نہیں!
ہمارے ملک میں پر تشدد واقعات اور بم دھماکوں کے بہت سارے واقعات رونما ہوئے جن کی ذمہ داری ’’مجاہدین خلق‘‘ نے قبول کی تھی۔ یہ تنظیم شیعہ اور فارسی قوم کے لوگوں کی ہے، حتی کہ بڑے بڑے حکومتی عہدیداروں کے بچے اور رشتے دار اس تنظیم میں شامل تھے، لیکن سزا صرف انہیں کو ملی اور وہی پیچھے ہٹادیے گئے دوسرے لوگ نہیں۔ کسی نے تمام شیعہ برادری یا فارسی زبانوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا فرقہ واریت اور لسانی اختلافات کو ہوا دینا ہمارے دشمنوں اور صہیونیوں کی کارستانی ہے اور ان کی خواہش بھی، اس لیے شرپسندوں کو صرف ان کے جرائم کی بنا پر سزا دینی چاہیے۔ ایسے سانحات کے اصل اسباب پر ریسرچ اور ان کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔

اپنے خطبے کے پہلے حصے میں قرآنی آیت: “وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ” کی تلاوت کے بعد مولانا عبدالحمید نے دنیا کے فانی ہوئے پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا اللہ تعالی نے اس آیت میں دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کی بقا کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن نے ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت کونکالنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا ہماری ضرورت ہے لیکن اس میں فائدے ونقصان دونوں ہیں۔ قرآن نے دنیا کے عیبوں اور نقصانات کو بیان کیا تا کہ اس کی محبت ہمارے دلوں میں ٹھکانہ نہ لگائے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی کمزوری اس کی فنا ہے، یہاں شاندار گاڑیاں، کپڑے، باغ اور محل وبنگلے سب فانی وختم ہونے والی چیزیں ہیں۔
مولانا عبدالحمید جو جامع مسجد مکی کی توسیع کے لیے کھدائے گئے گڑھے میں خطبے دے رہے تھے، نے بات آگے بڑھائی: یہ دنیا فانی ہے لیکن آخرت اور اس کے متعلقات باقی وہمیشگی ہیں۔ ’باقیات صالحات‘ کو اللہ تعالی نے بہترین اعمال قرار دیا ہے۔ باقیات صالحات میں نماز، زکات، حج، اللہ کے بندوں کے ساتھ نیکی کرنا، تلاوت قرآن اور فی سبیل اللہ نفقہ کرنا جیسے اعمال آتے ہیں۔
دنیا کی دوسری کمروزی یہ ہے کہ ’’بہت کم‘‘ ہے، قرآن میں آتا ہے: ’’قل متاع الدنیا قلیل‘‘؛ تو دنیاوی لذات بہت کم ہیں، لیکن اللہ کی عبادت اور اچھے اعمال باقی وہمیشگی ہیں۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے تاکید کرتے ہوئے کہا قرآن پاک نے دنیا کی کمزوریوں اور عیبوں کو اس لیے بیان فرمایا تا کہ ہم اس کا دلدادہ نہ بن جائیں، مادیات کی محبت ہمارے دلوں میں نہ آئے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، نیک اعمال اور جنت کی محبت دلوں میں آجائے۔
اپنے خطبے کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے کہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا شمار صحابہ کرام اور اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ مادی مفادات حاصل کرنے کے لیے نہیں نکلے تھے بلکہ انصاف کے نفاذ اور حق سے دفاع کے لیے اٹھے تھے، آپ نے ظلم کیخلاف آواز اٹھائی۔ اللہ تعالی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام بلند فرما دیا اور انہیں عزیز کردیا۔ حسین کی عزت ہمیشہ باقی رہے گی جبکہ آپ کے دشمن ہمیشہ کے لیے خوار ورسوا رہیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں